ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ
ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
گر جور و جفا کرے تو انعام سمجھ جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں اس کفر کو تو جادۂ اسلام سمجھ
دنیا کو نہ تو قبلۂ حاجات سمجھ جز ذکر خدا سب کو خرافات سمجھ اک لمحہ کسی مرد خدا کی صحبت آ جائے میسر تو بڑی بات سمجھ
آیا ہوں میں جانب عدم ہستی سے پیدا ہے بلند پائے گی پستی سے عجز اپنا بہ زور کر رہا ہوں ثابت مجبور ہوا ہوں میں زبردستی سے
ہے شکر درست اور شکایت زیبا ہے کفر درست اور ہدایت زیبا گیسوئے سیاہ اور جبین روشن دونوں کی بہار ہے نہایت زیبا
ہم عالم خواب میں ہیں یا ہم ہیں خواب ہم خود وسائل ہیں خود سوال اور جواب آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے ہم خود ہیں مسبب اور خود ہیں اسباب
بے کار نہ وقت کو گزارو یارو یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو
جو صاحب مکرمت تھے اور دانش مند وہ لوگ تو ہو گئے زمیں کے پیوند پوچھو نہ انہیں جو رہ گئے ہیں باقی بدنام کنندۂ نکو نامے چند
یا رب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے
اے بے خبری کی نیند سونے والو راحت طلبی میں وقت کھونے والو کچھ اپنے بچاؤ کی بھی سوچی تدبیر اے ڈوبتی ناؤ کے ڈبونے والو