للٰلہ ہمارے غرفہ دیں کو نہ چھوپ
للٰلہ ہمارے غرفۂ دیں کو نہ چھوپ بل کھائیں گے مجتہد بگڑ جائیں گے پوپ یہ کہتی چلی آتی ہیں لاکھوں عقلیں پہنے ہوئے آبا کے پرانے کنٹوپ
للٰلہ ہمارے غرفۂ دیں کو نہ چھوپ بل کھائیں گے مجتہد بگڑ جائیں گے پوپ یہ کہتی چلی آتی ہیں لاکھوں عقلیں پہنے ہوئے آبا کے پرانے کنٹوپ
باغوں پہ چھا گئی ہے جوانی ساقی سسکی وہ ہوائے زندگانی ساقی ہاں جلد انڈیل جلد بہتی ہوئی آگ آیا وہ برستا ہوا پانی ساقی
تاریکئ شب اور ہو تاریک ترین تب دل کو مرے آئے حقیقت پہ یقین جو نور کا سیلاب ہے اک دھوکا ہے تاریکئ افلاک ہے جوہر کی امین
آئینے میں عکس ڈھونڈھتا رہتا ہے اندھا گھڑی ٹٹولتا رہتا ہے اشیاء پہ یقیں نہ آئے تو دل دیکھے دل پر بھی خاک ڈالتا رہتا ہے
اک سیل رکا ہوا ہے اندر میرے اک شور نواح جاں سے ٹکرایا ہے تو بول تو لب کھول دوں میں آخر شب سننے کی اگر تاب ہے مولا میرے
بھرتا نہیں پیٹ جس قدر بھرتا ہوں ہر روز حصول رزق میں مرتا ہوں جب مجھ سے یہ کائنات ہے با معنی جینے کی جو یورش ہے عبث کرتا ہوں
پھولوں سے تمیز خار پیدا کر لیں یک رنگیٔ اعتبار پیدا کر لیں ٹھہرو چلتے ہیں سیر گلشن کو رواں پہلے دل میں بہار پیدا کر لیں
اب دشمن جاں ہی کلفت غم ساقی فریاد لبوں پر آ گیا دم ساقی کیا دور نہ ہوگی یہ مری تشنہ لبی میرے مولا میرے مکرم ساقی
تم تیشۂ باغباں سے کیوں مضطر ہو شاید یہ قلم ہی نخل بار آور ہو مقراض اجل ہے قاطع شاخ نبات ممکن ہے اسی میں راز جاں مضمر ہو
نالہ تیرا ناز سے بالا ہے یہ راز افشائے راز سے بالا ہے انساں معذور فکر انساں معذور نغمۂ آواز ساز سے بالا ہے