سرمایۂ اعتبار دے دیں تم کو
سرمایۂ اعتبار دے دیں تم کو رنگ حسن بہار دے دیں تم کو اس سے بہتر کہ نت نئے شکوے ہوں ہر چیز کا اختیار دے دیں تم کو
سرمایۂ اعتبار دے دیں تم کو رنگ حسن بہار دے دیں تم کو اس سے بہتر کہ نت نئے شکوے ہوں ہر چیز کا اختیار دے دیں تم کو
انداز جفا بدل کے دیکھو تو سہی پاؤں سے یہ پھول مل کے دیکھو تو سہی رنگ گلکاری جبین سجدہ اک دن گھر سے نکل کے دیکھو تو سہی
افلاس اچھا نہ فکر دولت اچھی جو دل کو پسند ہو وہ حالت اچھی جس سے اصلاح نفس نا ممکن ہو اس عیش سے ہر طرح مصیبت اچھی
ملنا کس کام کا اگر دل نہ ملے چلنا بے کار ہے جو منزل نہ ملے وسط دریا میں غرق ہونا بہتر اس کہ نظر میں آ کے ساحل نہ ملے
ہر قلب پہ بجلیاں گراتی آئی ایک آگ سی ہر طرف لگاتی آئی کھلتے جاتے ہیں زخم ہائے کہنہ پھر صبح بہار مسکراتی آئی
انساں کو چاہئے نہ ہمت ہمارے میدان طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی ہر کام میں ہیں انہیں کے وارے نیارے
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
ہے بار خدا کہ عالم آرا تو ہے دانائے نہان و آشکارا تو ہے ہر شخص کو ہے تیرے کرم کی امید ہر قوم کا آسرا سہارا تو ہے
احمد کا مقام ہے مقام محمود ہے مرجع حمد اور شایان درود لو لاک لما خلقت الافلاک ہے ہیچ شاہد ہے محمد اور عالم مشہود
دنیا کا نہ کھا فریب ویراں ہے یہ راحت سے نہ دل لگا کہ مہماں ہے یہ بچ نفس دنی سے ہے بڑا ہی کافر کر روح کی پرورش مسلماں ہے یہ