جلووں کی ہے بارگاہ میرے دل میں
جلووں کی ہے بارگاہ میرے دل میں غلطیدہ ہیں مہر و ماہ میرے دل میں اس دور خرد میں عشق گم ہو جاتا ملتی نہ اگر پناہ میرے دل میں
جلووں کی ہے بارگاہ میرے دل میں غلطیدہ ہیں مہر و ماہ میرے دل میں اس دور خرد میں عشق گم ہو جاتا ملتی نہ اگر پناہ میرے دل میں
ہر رنگ میں ابلیس سزا دیتا ہے انسان کو بہر طور دغا دیتا ہے کر سکتے نہیں گنہ جو احمق ان کو بے روح نمازوں میں لگا دیتا ہے
افسوس شراب پی رہا ہوں تنہا غلطاں بہ سبو تمام خون فن ہا ٹھٹھری ہوئی ساغر میں نظر آتی ہے صہبا رضی اللہ تعالیٰ عنہا
وہ آئیں تو ہوگی تمناؤں کی عید مے زہرہ بنی تو روح مستیٔ ناہید ارمان بڑے گلے میں ڈھولک ڈالے تھرکی کولہے پہ ہات رکھ کر امید
تھے پہلے کھلونوں کی طلب میں بیتاب پھر حسن کے جلووں سے رہے بے خور و خواب اب ہیں زن و فرزند پہ دل سے قربان بوڑھے ہیں مگر ہنوز بچے ہیں جناب
مفلوج ہر اصطلاح ایماں کر دے فردوس کو رہن طاق نیساں کر دے ساقی ہے مغنی ہے چمن ہے مے ہے اس نقد پہ سو ادھار قربان کر دے
اے رونق لالہ زار واپس آ جا اے دولت برگ و بار واپس آ جا ایسے میں کہ نو بہار ہے خلد بدوش اے نازش نو بہار واپس آ جا
کیا تبخ ملے گا گل فشانی کر کے کیا پائے گا توہین جوانی کر کے تو آتش دوزخ سے ڈراتا ہے انہیں جو آگ کو پی جاتے ہیں پانی کر کے
برسات ہے دل ڈس رہا ہے پانی فرقت میں تری جھلس رہا ہے پانی دل میں کبھی چبھتا ہے کلیجے میں کبھی آڑا ترچھا برس رہا ہے پانی
دل کی جانب رجوع ہوتا ہوں میں سر تا بقد رجوع ہوتا ہوں میں جب مہر مبیں غروب ہو جاتا ہے پیمانہ بکف طلوع ہوتا ہوں میں