پھوڑے نے سفر میں سخت گھبرایا ہے
پھوڑے نے سفر میں سخت گھبرایا ہے کلکتہ کی راہ میں یہ دکھ پایا ہے کیا درد کنار نے ستایا ہے منیرؔ یہ گرگ بغل راہ میں ہاتھ آیا ہے
پھوڑے نے سفر میں سخت گھبرایا ہے کلکتہ کی راہ میں یہ دکھ پایا ہے کیا درد کنار نے ستایا ہے منیرؔ یہ گرگ بغل راہ میں ہاتھ آیا ہے
ہر چند گناہوں سے ہوں میں نامہ سیاہ رحمت ہے کثیر اس کی مصحف ہے گواہ زاہد ناجی ہوا اور مجرم ناری لا حول ولا قوۃ الا باللہ
مضمون اگر راہ میں ہاتھ آتا ہے خامہ چلنے میں ٹھوکریں کھاتا ہے حال خط تقدیر کھلا آج منیرؔ اپنا لکھا پڑھا نہیں جاتا ہے
جراح کے سامنے کھولا پھوڑا میزان نظر میں اس نے تولا پھوڑا پھوڑے کی جگہ بغل میں دیکھے جو منیرؔ سب کہنے لگے دل کا پھپھولا پھوڑا
بے فائدہ رکھتا نہیں سر ہاتھوں پر سر پر جو ہے ہاتھ اس میں ہے لطف دگر آقا کے سلام و نظر کی حسرت میں رہتا ہوں منیرؔ سر بکف و دست بسر
اپنے آقا کی ہر گھڑی یاد میں ہوں ہر وقت منیرؔ آہ و فریاد میں ہوں اس شہر کے نام میں ہے تشدید بلا آرے کے تلے میں فرخ آباد میں ہوں
وہ بحر کرم جو مہرباں ہو جائے ہر دامن تر صبح جناں ہو جائے اس کی رحمت جو ہو خریدار منیرؔ جنس عصیاں بہت گراں ہو جائے
کلکتہ کو ڈاک میں چلا ہوں جو میں آہ غیروں کے پاؤں سے ہوئی قطع یہ راہ ہیں تیز کہار پالکی میں ہوں سوار کیا خانہ بدوش میں چلا ہوں واللہ
افسوس شکایت نہانی نہ گئی دل پر سے رقیب کی گرانی نہ گئی الطاف تھے بس کہ رو بروئے دشمن اس شوخ سے بد گمانی نہ گئی
ہے شرم گنہ سے جاں کیسی بے تاب پر ذکر جہاں ہوا، ہوا جی ہے تاب یارب کہ مؤثر نہ ہو کہنا میرا یارب ہے ترا بندۂ عاصی بے تاب