مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو
مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو اندیشہ کبھی بلند و پستی کا نہ ہو توحید وجودی میں جو ہے کیفیت ڈرتا ہوں کہ حیلہ خود پرستی کا نہ ہو
مومن یہ اثر سیاہ مستی کا نہ ہو اندیشہ کبھی بلند و پستی کا نہ ہو توحید وجودی میں جو ہے کیفیت ڈرتا ہوں کہ حیلہ خود پرستی کا نہ ہو
کیوں زرد ہے رنگ کس لیے آنسو لال کس واسطے ہر گھڑی رہے ہے تو نڈھال کیا شکل پہ بن گئی ہے تیری مومنؔ کیا ہو گیا تجھ کو کیوں ہے تیرا یہ حال
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے غل رعد کا نالوں کی زبانی ہو جائے اشکوں سے جھڑی لگے وہ شہ کے غم کی ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے پھر تازہ مری مرثیہ خوانی ہو جائے فضل باری سے ہوں یہ آنسو جاری ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ دھوئے جاں سے
اے خضر کے رہبر مجھے گمراہ نہ کر ممنوں گدا دلوں کا یا شاہ نہ کر روباہ کی طرح چھپتے ہیں ارباب دول یا شیر خدا سائل کو روباہ نہ کر
مشہور جہاں ہے داستان شیریں شیریں نے فدا کی شہ پہ جان شیریں شبیر کی ہے وعدہ وفائی کا بیاں گویا مرے منہ میں ہے زبان شیریں
ہے رزم سراپا تو زباں اور ہی ہے اور بین کے مابین بیاں اور ہی ہے کس درجہ بلند ہے تیری فکر دبیرؔ کہتی ہے زمیں یہ آسماں اور ہی ہے
اس بزم کو جنت سے جو خوش پاتے ہیں رضواں لیے گلدستہ نور آتے ہیں کیا صحن ہے گلشن عزائے شبیر پانی یہاں خضر آ کے چھڑک جاتے ہیں
یا شاہ نجف تھام لو اس کشور کو آباد رکھو اہل عزا کے گھر کو یوں کھودو مخالف کے عمل کی بنیاد جس طرح اکھاڑا ہے در خیبر کو