جو محرم گل زار جہاں ہوتے ہیں
جو محرم گل زار جہاں ہوتے ہیں وہ اپنی لطافت کو کہاں کھوتے ہیں ہنسنا ہو اگر ہنستے ہیں غنچے کی طرح روتے ہیں تو شبنم کی طرح روتے ہیں
جو محرم گل زار جہاں ہوتے ہیں وہ اپنی لطافت کو کہاں کھوتے ہیں ہنسنا ہو اگر ہنستے ہیں غنچے کی طرح روتے ہیں تو شبنم کی طرح روتے ہیں
ماحول سے ظلمت کی ردا ہٹتی ہے اک دھند سی تا حد نظر چھٹتی ہے لہرا کے بھرے جسم کو وہ جان بہار ہنستی ہے تو آکاش پہ پو پھٹتی ہے
تا حد نظر دمک رہے ہیں ذرے صد شعلہ بجاں دہک رہے ہیں ذرے مژدہ کہ مہ و مہر کے ایوانوں پر کوندوں کی طرح لپک رہے ہیں ذرے
امرت سے فضائیں دم بدم دھلتی ہیں ہر ذرے میں سو روشنیاں گھلتی ہیں جب صبح کو وہ نیند سے بوجھل آنکھیں کھلتی ہوئی کلیوں کی طرح کھلتی ہیں
بیتے ہوئے لمحوں کا اشارا لے کر رومان کا بہتا ہوا دھارا لے کر اتری ہے مرے ذہن میں پھر یاد تری مہتاب کی کرنوں کا سہارا لے کر
آنکھوں میں سحر جھلک رہی ہے گویا ہونٹوں سے شفق ڈھلک رہی ہے گویا یوں پھبکے ہوئے جسم میں رقصا ہے شباب پیمانے سے مے چھلک رہی ہے گویا
دنیا ہے ارم سے بھی حسیں دیکھ ذرا آکاش پہ ہنستی ہے زمیں دیکھ ذرا آب آب ہوئے جاتے ہیں ماہ و انجم لو دیتی ہے ذروں کی جبیں دیکھ ذرا
احساس نشاط کی کمی دیکھو گے آلام کی گرد سی جمی دیکھو گے نزدیک سے دیکھو گے تبسم کو اگر سوکھے ہوئے اشکوں کی نمی دیکھو گے
الفاظ کی رگ رگ میں رچاتا ہوں لہو تابندہ خیالوں کو پلاتا ہوں لہو ہر شعر کی محراب میں مشعل کی طرح میں اپنی جوانی کا جلاتا ہوں لہو
عاشق ہی فقط نہیں ہے جنجالوں میں ہر طائر دل پھنسا ہے ان جالوں میں باہر اس سلسلہ سے ہے کون منیرؔ بوڑھے بھی ہیں اس جوان کے بالوں میں