شاعری

اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے

اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے ہو گئے تنہا جہاں میں کتنی صدیوں کے لئے رات کا پچھلا پہر مجھ کو بشارت دے گیا آ رہی ہے روشنی تاریک گلیوں کے لئے کوئی سی رت ہو سدا پایا ہے ان کو سوگوار موسموں کا قہر ہے معصوم پتوں کے لئے اب کوئی چہرہ کوئی منظر ہمیں روکے گا کیا اٹھ چکے اپنے قدم ...

مزید پڑھیے

چمکے ہوئے ہیں دیوار و در رونق ہے بازاروں میں

چمکے ہوئے ہیں دیوار و در رونق ہے بازاروں میں کیسے کیسے لوگ آئے ہیں کیسی کیسی کاروں میں میں تو اس کے سامنے بیٹھا اس کا چہرہ پڑھتا تھا جانے وہ کیا ڈھونڈ رہا تھا انگریزی اخباروں میں وہ بھی دن تھے جب ہر چھٹی تیرے ساتھ گزرتی تھی آج مگر رکھا ہی کیا ہے ہفتوں اور اتواروں میں جانے کس ...

مزید پڑھیے

آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں

آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں اب کوئی ہم میں شکستہ پر نہیں سامنے شیشے تو ہیں لاکھوں مگر آج اپنے ہاتھ میں پتھر نہیں پھول زخموں کے کھلے ہیں جا بجا یہ تو میرے شہر کا منظر نہیں جل رہے ہیں ہم تو اپنی آگ میں آتشیں تیرا حسیں پیکر نہیں روشنی کی بھیک مانگوں غیر سے اتنا بھی تاریک میرا گھر ...

مزید پڑھیے

شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں

شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں کتنا سکوں ملا ہے درختوں کی چھاؤں میں وہ آ رہا ہے میری طرف رینگتا ہوا کانٹا طلب کا چبھ گیا پتھر کے پاؤں میں اب اس کے جسم پر بھی مزین ہیں دھجیاں جس کا شمار تھا کبھی رنگیں قباؤں میں دیتا رہا پہاڑ کی چوٹی سے وہ صدا اس کی صدائیں کھو گئیں اونچی ...

مزید پڑھیے

مرض ایسا ہے کہ جس کی دوا ہونے نہیں والی

مرض ایسا ہے کہ جس کی دوا ہونے نہیں والی کسی بھی حال میں تم سے وفا ہونے نہیں والی مرے حصہ کے جو بھی جام ہیں وہ سامنے رکھ دو مرے ہونٹوں سے کوئی التجا ہونے نہیں والی ہمیں ہی ڈھونڈنے ہیں راستے خود اپنی منزل کے یہ دنیا تو ہماری رہنما ہونے نہیں والی مجھے معلوم ہے سب کچھ یہیں رہ جائے ...

مزید پڑھیے

قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے

قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے بستی مری پہ راج مرے دشمنوں کا ہے قلب و نظر میں نور نئے تجربوں کا ہے احسان کس قدر یہ بدلتی رتوں کا ہے چہرے سے دھل چکی مری بیداریوں کی راکھ آنکھوں میں کچھ خمار ابھی رتجگوں کا ہے تو سو رہا تھا اور میں دستک نہ دے سکا کتنا خیال مجھ کو تری راحتوں کا ...

مزید پڑھیے

جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں

جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں سامنے تجھ کو بٹھائیں تجھے شب بھر دیکھیں بند ہے شام سے ہی شہر کا ہر دروازہ آ شب ہجر کہ اب اور کوئی گھر دیکھیں ایسے ہم دیکھتے ہیں دل کے اجڑنے کا سماں جس طرح داسیاں جلتا ہوا مندر دیکھیں آج بھی شہر میں ہے میری وفا کی شہرت آئیں اور آ کے ذرا میرے ...

مزید پڑھیے

داستانوں میں وہ جادو ہے نہ تفسیروں میں ہے

داستانوں میں وہ جادو ہے نہ تفسیروں میں ہے جو تری آنکھوں کی بے آواز تقریروں میں ہے رائیگاں ہیں کل کی خوشیاں کل کے غم بھی بے اثر اب بھلا رکھا ہی کیا ماضی کی تصویروں میں ہے تیری آنکھوں میں اگر پڑھنے کی ہمت ہے تو پڑھ کرب کا مضموں مرے ماتھے کی تحریروں میں ہے اس کے اک اک انگ میں وہ ...

مزید پڑھیے

ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی

ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی پھولوں کی طلب باعث آلام ہے اب بھی اک عمر سے گو رسم جنوں چھوڑ چکا ہے دیوانہ ترے شہر میں بدنام ہے اب بھی کہنے کو تو ہر سمت بہاروں کا سماں ہے دل اپنا تو افسردہ سر شام ہے اب بھی مدت سے کئے بیٹھے ہیں گو ترک محبت ہاں باعث تسکین وہی نام ہے اب بھی کس آنکھ ...

مزید پڑھیے

پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے

پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے کندن سا ترا جسم جو خوشبو میں بسا ہے جنگل کے غزالوں پہ عجب خوف ہے طاری طوفان کوئی شہر کی جانب سے اٹھا ہے یہ حسن چمن ہے مرے احساس کی تخلیق ورنہ کہیں گل ہے نہ کہیں موج صبا ہے ہر لفظ ترے چہرے کی تصویر بنا تھا کس کرب سے سو بار ترے خط کو پڑھا ...

مزید پڑھیے
صفحہ 992 سے 4657