مرض ایسا ہے کہ جس کی دوا ہونے نہیں والی

مرض ایسا ہے کہ جس کی دوا ہونے نہیں والی
کسی بھی حال میں تم سے وفا ہونے نہیں والی


مرے حصہ کے جو بھی جام ہیں وہ سامنے رکھ دو
مرے ہونٹوں سے کوئی التجا ہونے نہیں والی


ہمیں ہی ڈھونڈنے ہیں راستے خود اپنی منزل کے
یہ دنیا تو ہماری رہنما ہونے نہیں والی


مجھے معلوم ہے سب کچھ یہیں رہ جائے گا اک دن
مری خواہش کبھی حد سے سوا ہونے نہیں والی


ہم عاشق ہیں چڑھا دیجے صلیب و دار پر لیکن
نماز عشق تو ہم سے قضا ہونے نہیں والی


ابھی کچھ اور پیچ و خم بھی نکلیں گے محبت میں
یہ کس نے کہہ دیا ہم سے خطا ہونے نہیں والی