قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے

قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے
بستی مری پہ راج مرے دشمنوں کا ہے


قلب و نظر میں نور نئے تجربوں کا ہے
احسان کس قدر یہ بدلتی رتوں کا ہے


چہرے سے دھل چکی مری بیداریوں کی راکھ
آنکھوں میں کچھ خمار ابھی رتجگوں کا ہے


تو سو رہا تھا اور میں دستک نہ دے سکا
کتنا خیال مجھ کو تری راحتوں کا ہے


شاید وہ آج میری طرح ہی تھا بے قرار
یا یہ بھی کوئی عکس مری الجھنوں کا ہے


چلتی ہے جس طرح سے تری نبض تیز تیز
انداز ہو بہ ہو یہ مری دھڑکنوں کا ہے


جن کے طفیل سبز ہے کہسار کا بدن
سیلاب وادیوں میں انہیں بارشوں کا ہے


دیوانگی میں میری نہیں ہے کسی کا ہاتھ
سارا قصور اس میں مری عادتوں کا ہے


دل مضطرب ہے اور سیاحت ہے بے مزہ
جادو ابھی ہمارے سروں پر گھروں کا ہے


کیا جانیں کس طرح سے اسے طے کریں گے ہم
درپیش اک سفر جو گھنے جنگلوں کا ہے


بیتابؔ اپنے حال پہ ماتم نہ کیوں کروں
مجھ کو ابھی تو رنج لٹی ساعتوں کا ہے