آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں

آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں
اب کوئی ہم میں شکستہ پر نہیں


سامنے شیشے تو ہیں لاکھوں مگر
آج اپنے ہاتھ میں پتھر نہیں


پھول زخموں کے کھلے ہیں جا بجا
یہ تو میرے شہر کا منظر نہیں


جل رہے ہیں ہم تو اپنی آگ میں
آتشیں تیرا حسیں پیکر نہیں


روشنی کی بھیک مانگوں غیر سے
اتنا بھی تاریک میرا گھر نہیں


ہو گئے بیتابؔ اب ہم سرفراز
اب کسی چوکھٹ پہ اپنا سر نہیں