ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی

ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی
پھولوں کی طلب باعث آلام ہے اب بھی


اک عمر سے گو رسم جنوں چھوڑ چکا ہے
دیوانہ ترے شہر میں بدنام ہے اب بھی


کہنے کو تو ہر سمت بہاروں کا سماں ہے
دل اپنا تو افسردہ سر شام ہے اب بھی


مدت سے کئے بیٹھے ہیں گو ترک محبت
ہاں باعث تسکین وہی نام ہے اب بھی


کس آنکھ سے نظارہ کریں لالہ و گل کا
تقدیس نظر باعث الزام ہے اب بھی


کچھ تجھ کو خبر ہے بھی اسے بھولنے والے
بیتابؔ کے ہونٹوں پہ ترا نام ہے اب بھی