اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے

اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے
ہو گئے تنہا جہاں میں کتنی صدیوں کے لئے


رات کا پچھلا پہر مجھ کو بشارت دے گیا
آ رہی ہے روشنی تاریک گلیوں کے لئے


کوئی سی رت ہو سدا پایا ہے ان کو سوگوار
موسموں کا قہر ہے معصوم پتوں کے لئے


اب کوئی چہرہ کوئی منظر ہمیں روکے گا کیا
اٹھ چکے اپنے قدم پر پیچ رستوں کے لئے


ایک گل ہے تجھ کو پیارا ایک گل مجھ کو عزیز
کتنے پاگل ہو گئے ہم لوگ رنگوں کے لئے


جن کا سایہ ماؤں کی آغوش سے کچھ کم نہ تھا
قتل کے احکام ہیں اب ان درختوں کے لئے


اب نئے پہلو سے دیکھا چاہیے باہر کا رنگ
منتخب کیجے نئی جگہیں دریچوں کے لئے


ذات کے تاریک غاروں میں دریچے کھولیے
راستہ کوئی تو ہو سورج کی کرنوں کے لئے


کیجیے بیتابؔ روشن اپنی پلکوں پر دیے
روشنی درکار ہے بے نور کمروں کے لئے