شاعری

ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں

ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں اے مہرباں یہ شہر طلسمات بھی نہیں شہروں میں گام گام پہ لاکھوں گنا سہی معصوم اتنے آج کے دیہات بھی نہیں وہ بیٹھتا ہے شہر کے ہوٹل میں آج بھی میرے نصیب میں کوئی فٹ پاتھ بھی نہیں اب ذہن میں بھی قوس قزح پھوٹتی نہیں ہاتھوں میں میرے آج ترا ہاتھ بھی ...

مزید پڑھیے

یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر

یوں سنہری دھوپ بکھری ہے رخ کہسار پر جس طرح غازہ چمکتا ہے ترے رخسار پر اڑتے لمحوں کو پکڑنے کی تمنا ہے عبث یہ پرندے تو کبھی ٹکتے نہیں اشجار پر وہ مرے چہرے پہ کیا ماضی کی تحریریں پڑھے اس کی نظریں تو جمی ہیں آج کے اخبار پر آج تو اک حادثہ اس کو بھی ننگا کر گیا لاکھ پردے تھے پڑے جس شخص ...

مزید پڑھیے

پھر ترے قول و قسم یاد آئے

پھر ترے قول و قسم یاد آئے تری چاہت کے ستم یاد آئے کس قدر چوٹ لگی ہے دل پر جب بھی مر مر کے صنم یاد آئے یاد جب آیا ترا نام مجھے کتنے بے نام سے غم یاد آئے جانے وہ کیسا سفر تھا میرا جس کا اک ایک قدم یاد آئے پھر مرا ذہن ہے الجھا الجھا پھر تری زلف کے خم یاد آئے اور بھی یاد کی لو تیز ...

مزید پڑھیے

کر گئے اشک مری آنکھ کو جل تھل کیا کیا

کر گئے اشک مری آنکھ کو جل تھل کیا کیا اب کے برسا ہے تری یاد کا بادل کیا کیا جس طرف دیکھیے اک قوس قزح ہے رقصاں رنگ بھرتا ہے فضا میں ترا آنچل کیا کیا تو تو چپ چاپ تھا لیکن تجھے معلوم نہیں کہہ گیا میری نظر سے ترا کاجل کیا کیا شہر سفاک کی بے درد گزر گاہوں میں جگمگاتے ہیں چراغ سر مقتل ...

مزید پڑھیے

میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا

میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا جو بھی تھا پہلو میں میرے وہ مرا دلبر نہ تھا کس قدر دل کش لگیں سپنے میں گلیاں شہر کی کھل گئی جب آنکھ تو پھر وہ حسیں منظر نہ تھا جانے کیا شے دل کے آئینے کے ٹکڑے کر گئی دیکھنے میں اس کے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا بد حواسی تھی مری یا تجھ سے ...

مزید پڑھیے

بنا ہے دشمن گل جب سے باغباں اپنا

بنا ہے دشمن گل جب سے باغباں اپنا بھری بہار میں جلتا ہے آشیاں اپنا اگر ہو اذن تو اے میر کارواں پوچھوں چلا ہے کون سی منزل کو کارواں اپنا اب اس گلی میں مرا کوئی ہم جلیس نہیں قدم قدم پہ جہاں کل تھا رازداں اپنا جہاز اپنے حریفوں کے بے شمار سہی کرو نہ فکر کہ دریا ہے بے کراں اپنا زمیں ...

مزید پڑھیے

فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی

فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی ذہن کے تالاب پر کیا نقش آرائی ملی مطمئن ہوتا کہاں میرا دل جلوت پسند درمیان شہر بھی جنگل سی تنہائی ملی دیکھنے میں دور سے وہ کس قدر سادہ لگا پاس سے دیکھا تو اس میں کتنی گہرائی ملی ہر دریچہ میرے استقبال کو وا ہو گیا اجنبی گلیوں میں بھی مجھ کو ...

مزید پڑھیے

آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے

آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے دور بھاگتے ہیں لوگ شہر کے درختوں سے پچھلی رات جب ہر سو ظلمتوں کا پہرہ تھا ایک چاند نکلا تھا ان حسیں دریچوں سے جانے چھو گئے ہوں گے کس کے پھول سے پاؤں اک مہک سی اٹھتی ہے اس نگر کے رستوں سے آج کے زمانے میں کس کو ہے سکوں حاصل سب ہیں بر سر پیکار اپنی اپنی ...

مزید پڑھیے

یوں بنے سنورے ہوئے سے پھول ہیں گلزار میں

یوں بنے سنورے ہوئے سے پھول ہیں گلزار میں سیر کو نکلی ہوں جیسے لڑکیاں بازار میں یہ ترا حسن تکلم یہ ترا حسن بیاں ٹوٹنے لگتے ہیں آئینے تری گفتار میں کس نے پھینکا ہے یہ پتھر ذہن کے تالاب میں ایک طوفاں سا بپا ہے اب مرے افکار میں تیرے چہرے پر نظر آتے ہیں اپنے ہی نقوش ہے مرا دیدار بھی ...

مزید پڑھیے

چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی

چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی وہ آنکھ میرے درد کی تفسیر بن گئی میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی ہر سمت ہیں کٹی پڑی پھولوں کی گردنیں اب کے صبا ہی باغ میں شمشیر بن گئی اس کی نظر تو کہتی تھی پرواز کے لیے میری ہی سوچ پاؤں کی زنجیر بن ...

مزید پڑھیے
صفحہ 991 سے 4657