شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں

شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں
کتنا سکوں ملا ہے درختوں کی چھاؤں میں


وہ آ رہا ہے میری طرف رینگتا ہوا
کانٹا طلب کا چبھ گیا پتھر کے پاؤں میں


اب اس کے جسم پر بھی مزین ہیں دھجیاں
جس کا شمار تھا کبھی رنگیں قباؤں میں


دیتا رہا پہاڑ کی چوٹی سے وہ صدا
اس کی صدائیں کھو گئیں اونچی فضاؤں میں


سبزہ سا ایک شہر پہ بکھرا ہے چار سو
پتوں کے رنگ گھل گئے ٹھنڈی ہواؤں میں


بیتابؔ لڑکیوں کی جسارت تو دیکھیے
خود کو شمار کرتی ہیں سب اپسراؤں میں