شاعری

آدمی ارتقا کی غار میں تھا

آدمی ارتقا کی غار میں تھا پھر خدا تھا تو کس قطار میں تھا عقل ہی لائی اس کی چوکھٹ تک دل کہاں اپنے اختیار میں تھا نیکیاں راستے میں بکھری تھیں علم تسبیح کے حصار میں تھا جمع تفریق کے سوالوں سے طالب علم انتشار میں تھا راستے پر تو آ چلا تھا مگر آدمی درجۂ غبار میں تھا طے ہوئے فاصلے ...

مزید پڑھیے

شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی

شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی چھڑ گیا جب بھی تیرا قصہ ختم ہوا دن رات گئی سوکھے ہونٹ تو بوند کو ترسے مینا خالی جام تہی لیکن پھر بھی چند لبوں تک ساقی کی سوغات گئی سرگوشی میں بات جو کی تھی کیا تھی ہم خود بھول گئے لیکن ایک فسانہ بن کر دنیا تک وہ بات گئی یادوں کے زہریلے ...

مزید پڑھیے

ہے آگے ایک بیابان اس ببول کے بعد

ہے آگے ایک بیابان اس ببول کے بعد ہمارا کوئی نہیں ہے دل ملول کے بعد نہ جانے خود کو کہاں چھوڑ آیا رستے میں مجھے تلاش ہے اپنی ترے حصول کے بعد سفر حیات کا کب ختم ہونے والا ہے کہ جب زمیں نہ ہوئی ختم عرض و طول کے بعد تمہاری ذات ہی کیا قوس میں گھرے ہندسو نہ کچھ اصول سے پہلے نہ کچھ اصول ...

مزید پڑھیے

جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے

جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے اس شہر میں میرا کوئی دشمن بھی نہیں ہے سوکھے ہوئے کچھ پھول نہ پگھلی ہوئی شمعیں اللہ وہ صحرا کہ جو مدفن بھی نہیں ہے ہمسائے کی صورت کوئی دیکھے بھی تو کیوں کر دیوار وہ حائل ہے کہ روزن بھی نہیں ہے اب اپنا جنازہ لئے بازار میں گھومو جاؤ گے کہاں ...

مزید پڑھیے

زیب و آرائش کے ساماں دل کو بہلاتے نہیں

زیب و آرائش کے ساماں دل کو بہلاتے نہیں زندگی میں اب کہیں بھی پیار کے ناتے نہیں میکدے ویران ہیں مے کش بھی سب حیران ہیں موسموں کو کیا ہوا کیوں ابر اب چھاتے نہیں نفرتوں کی گرم بازاری سے جی گھبرا گیا اب محبت کے ترانے نغمہ خواں گاتے نہیں اس نے جو کچھ کہہ دیا سنتے رہے دیکھا کئے دل کے ...

مزید پڑھیے

وہ جن کی لے ہم بھول گئے وہ میٹھے گیت پرانے ہیں

وہ جن کی لے ہم بھول گئے وہ میٹھے گیت پرانے ہیں جو سچے رشتے ناطے تھے وہ آج سبھی بیگانے ہیں کل جن سے نگاہیں ملتی تھیں اک ہوک سی دل میں اٹھتی تھی اب سارے رستے بند ہوئے وہ لوگ سبھی انجانے ہیں میں پیار کی بات کروں کس سے ہر بات خیال و خواب ہوئی کیا اپنی وفا کا ذکر کروں کہتے ہیں یہ سب ...

مزید پڑھیے

کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں

کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں ہو ختم عمر تو اس کرب زار سے نکلیں طلسم خود نگری توڑ کر تو باہر آ تو ہم بھی اپنی انا کے حصار سے نکلیں ہمارے عکس میں دھندلاہٹیں ہیں ماضی کی غبار دل کا چھٹے تو غبار سے نکلیں وہاں بھی سخت مسائل کا سامنا ہوگا تو کس امید پہ اس ریگزار سے نکلیں ہم اپنی حد سے ...

مزید پڑھیے

کب ہمیں خود پہ اعتبار آیا

کب ہمیں خود پہ اعتبار آیا بس ترے نام سے قرار آیا زمزمہ خواں جو تیرے حسن کا تھا مجھ کو اس پر بھی کیسا پیار آیا کیسا خوں راستوں میں بہتا ہے کیسی بستی ہے کیا دیار آیا اس کے وعدے تو صرف وعدے تھے پھر بھی ہر بار اعتبار آیا

مزید پڑھیے

عشق کی آنکھ اس لئے نم ہے

عشق کی آنکھ اس لئے نم ہے حسن کی زندگی بہت کم ہے راز ہستی سمجھ سکا ہے کون یوں تو ہاتھوں میں ساغر جم ہے اے مرے ہم سفر سنبھل کے چلو راستے کا چراغ مدھم ہے چاند بدلی میں چھپ نہ جائے کہیں گیسوئے یار آج برہم ہے اس کی ہر بات ہے مرا ایماں سر تسلیم آج بھی خم ہے

مزید پڑھیے

گزرے ہیں تیرے ساتھ جو دن رات ابھی تک

گزرے ہیں تیرے ساتھ جو دن رات ابھی تک آنکھوں میں بسے ہیں وہی لمحات ابھی تک کچھ عشق کی لذت بھی ہے کچھ سوزش دل بھی تازہ ہیں مرے دل میں یہ سوغات ابھی تک کرتی ہوں کبھی جب تری تصویر سے باتیں کیوں آنکھ سے ہوتی ہے یہ برسات ابھی تک وہ تیرا تبسم وہ محبت بھری نظریں رقصاں ہے لہو میں تری ہر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1107 سے 4657