جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے
جینے پہ جو اکسائے وہ الجھن بھی نہیں ہے
اس شہر میں میرا کوئی دشمن بھی نہیں ہے
سوکھے ہوئے کچھ پھول نہ پگھلی ہوئی شمعیں
اللہ وہ صحرا کہ جو مدفن بھی نہیں ہے
ہمسائے کی صورت کوئی دیکھے بھی تو کیوں کر
دیوار وہ حائل ہے کہ روزن بھی نہیں ہے
اب اپنا جنازہ لئے بازار میں گھومو
جاؤ گے کہاں شہر میں مدفن بھی نہیں ہے
ڈھونڈوں تو کہاں کھوئے ہوئے ذہن کو افسرؔ
ہاتھوں میں مرے سوچ کا دامن بھی نہیں ہے