شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی
شعلۂ گل سے رنگ شفق تک عارض و لب کی بات گئی
چھڑ گیا جب بھی تیرا قصہ ختم ہوا دن رات گئی
سوکھے ہونٹ تو بوند کو ترسے مینا خالی جام تہی
لیکن پھر بھی چند لبوں تک ساقی کی سوغات گئی
سرگوشی میں بات جو کی تھی کیا تھی ہم خود بھول گئے
لیکن ایک فسانہ بن کر دنیا تک وہ بات گئی
یادوں کے زہریلے نشتر ٹوٹ رہے ہیں رگ رگ میں
برسا کر کچھ ایسے شعلے اب کے برس برسات گئی
سسکی اک مجبور دلہن کی ذہن میں ابھری رہ رہ کر
شہنائی کی گونج میں افسرؔ جب بھی کوئی بارات گئی