عشق کی آنکھ اس لئے نم ہے

عشق کی آنکھ اس لئے نم ہے
حسن کی زندگی بہت کم ہے


راز ہستی سمجھ سکا ہے کون
یوں تو ہاتھوں میں ساغر جم ہے


اے مرے ہم سفر سنبھل کے چلو
راستے کا چراغ مدھم ہے


چاند بدلی میں چھپ نہ جائے کہیں
گیسوئے یار آج برہم ہے


اس کی ہر بات ہے مرا ایماں
سر تسلیم آج بھی خم ہے