کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں

کشاکش غم لیل و نہار سے نکلیں
ہو ختم عمر تو اس کرب زار سے نکلیں


طلسم خود نگری توڑ کر تو باہر آ
تو ہم بھی اپنی انا کے حصار سے نکلیں


ہمارے عکس میں دھندلاہٹیں ہیں ماضی کی
غبار دل کا چھٹے تو غبار سے نکلیں


وہاں بھی سخت مسائل کا سامنا ہوگا
تو کس امید پہ اس ریگزار سے نکلیں


ہم اپنی حد سے تجاوز تو کر نہیں سکتے
حضور آپ ہی قید وقار سے نکلیں


سمجھ لو ذوق ادب پر معاش حاوی ہے
جریدے شہر میں جب اشتہار سے نکلیں