آدمی ارتقا کی غار میں تھا
آدمی ارتقا کی غار میں تھا
پھر خدا تھا تو کس قطار میں تھا
عقل ہی لائی اس کی چوکھٹ تک
دل کہاں اپنے اختیار میں تھا
نیکیاں راستے میں بکھری تھیں
علم تسبیح کے حصار میں تھا
جمع تفریق کے سوالوں سے
طالب علم انتشار میں تھا
راستے پر تو آ چلا تھا مگر
آدمی درجۂ غبار میں تھا
طے ہوئے فاصلے قیامت کے
ورنہ اک لمحہ کس شمار میں تھا
اس نے لایا مجھے وہاں کہ جہاں
میں خود اپنے ہی انتظار میں تھا