شاعری

اس طرح یاد آنے سے کیا فائدہ

اس طرح یاد آنے سے کیا فائدہ مفت احساں جتانے سے کیا فائدہ جس جگہ دل ہی جھکتا نہیں آپ کا اس جگہ سر جھکانے سے کیا فائدہ ختم کچھ دم میں ہو جائے گی روشنی شمع کی لو بڑھانے سے کیا فائدہ اپنے دشمن سے واقف تو ہیں ہم مگر نام اس کا بتانے سے کیا فائدہ کھل کے ہنسئے تباہی پہ میری حضور زیر لب ...

مزید پڑھیے

وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں

وہی ہم ہیں وہی لاچاریاں ہیں وہی یاروں کی دنیا داریاں ہیں وہ سوکھی آنکھ سے رونا بلکنا عزا داری میں بھی فن کاریاں ہیں کہاں تک تم علاج اس کا کرو گے کہ اس دل کو کئی بیماریاں ہیں نصیب اپنا لکھا ہے آسماں پر زمیں پر صرف ذمہ داریاں ہیں صبا سرگوشیوں میں کہہ رہی ہے یہاں سے کوچ کی ...

مزید پڑھیے

گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ

گرم رکھے ہے ابھی تک بھی رخ یار کی آنچ وہ دہکتی ہوئی صورت لب و رخسار کی آنچ پیٹ کی آگ ہی کیا کم تھی جلانے کے لئے گھر کے گھر راکھ کئے دیتی ہے بازار کی آنچ پہلے آتی تھی صبا لے کے گلوں کی خوشبو اب تو صحرا کو جلا دیتی ہے گلزار کی آنچ گرم جوشی کے بھلاوے میں اگر آ بھی گئے ٹھہرنے ہی نہیں ...

مزید پڑھیے

مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ

مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ جو بدل بدل کے عنواں میں کہوں وہی فسانہ یہ بہار یہ گھٹائیں یہ شباب کا زمانہ مجھے اب تو دیجے ناصح نہ صلاح مخلصانہ جو ہو جذب جذب کامل جو ہو شوق والہانہ تو ہے بندگی کو لازم نہ جبیں نہ آستانہ ہے مجھے ملال اس کا کہ بدل گئیں وہ نظریں مجھے اس ...

مزید پڑھیے

طبیعت سوئے آسانی کبھی مائل نہیں ہوتی

طبیعت سوئے آسانی کبھی مائل نہیں ہوتی محبت میں کوئی مشکل بھی ہو مشکل نہیں ہوتی مسافر بیٹھ جاتا ہے جہاں بس بیٹھ جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کو خواہش منزل نہیں ہوتی انہیں رحم آ ہی جائے گا تو عرض حال کرتا جا خلوص دل سے جو کوشش ہو لا حاصل نہیں ہوتی تری محفل میں کون آیا تری محفل سے کون ...

مزید پڑھیے

دیوانگی سے کام لیا ہے کبھی کبھی

دیوانگی سے کام لیا ہے کبھی کبھی دامن کسی کا تھام لیا ہے کبھی کبھی کرتا رہا کسی کو بھلانے کی کوششیں یوں دل سے انتقام لیا ہے کبھی کبھی حد سے سوا جو بڑھنے لگیں بے قراریاں ایسے میں ان کا نام لیا ہے کبھی کبھی نظریں ملی ہوئی تھیں تبسم لبوں پہ تھا ساقی سے یوں بھی جام لیا ہے کبھی ...

مزید پڑھیے

ہوئے بھی عشق میں رسوا تو احترام کے ساتھ

ہوئے بھی عشق میں رسوا تو احترام کے ساتھ تمہارا نام بھی آیا ہمارے نام کے ساتھ تمہاری بزم میں سب کا گزر ہے میرے سوا خصوصیت ہے ضروری صلائے عام کے ساتھ شکایتوں کا فسانہ ترے تبسم پر تمام ہو گیا اک آہ ناتمام کے ساتھ ہر اک فضا میں مسرت کو غم سے نسبت ہے تری سحر کو ہے اک ربط میری شام کے ...

مزید پڑھیے

اندھیرے گھر کی روایات توڑ جانا ہے

اندھیرے گھر کی روایات توڑ جانا ہے ہمیں چراغ اجالے میں چھوڑ جانا ہے نہیں ہے مصرف جان اور کچھ مگر یہ ہے تمام عالم امکاں جھنجھوڑ جانا ہے وہیں سے ترک تعلق کی راہ نکلی ہے جہاں سے تم نے محبت کا موڑ جانا ہے ہے خواہشات سے چھٹنا اتر تو یوں سمجھو کہ بس حصار ہوا ہی تو توڑ جانا ہے ہماری ...

مزید پڑھیے

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ

دھوپ کو گرم نہ کہہ سایۂ دیوار نہ دیکھ تجھ کو چلنا ہے تو پھر وقت کی رفتار نہ دیکھ میری فکروں سے الجھ مجھ کو سمجھنے کے لئے دور سے موج میں الجھی ہوئی پتوار نہ دیکھ ان کی روحوں کو پرکھ آدمی ہیں بھی یا نہیں صرف صورت پہ نہ جا جبہ و دستار نہ دیکھ اپنے آنگن ہی میں کر فکر نموئے گلشن کوئی ...

مزید پڑھیے

غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے

غزل غالبؔ نہ تنہا میرؔ سے ہے جڑی صد حلقۂ زنجیر سے ہے مقدر ہو چکی تھی موت لیکن یہ دل زندہ کسی تدبیر سے ہے میں منظر اور نہ پس منظر کو دیکھوں مجھے مطلب تری تصویر سے ہے گرے ہوتے مرے آنسو تو روتا کہ تیرا غم مری تقدیر سے ہے میں بیٹھا ہوں دعا سے ہاتھ اٹھائے ندامت اس قدر تقصیر سے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1106 سے 4657