غذائی بحران سے نکلنے کے سات طریقے

یوکرین اور روس کی جنگ نے عالمی سطح پر بے شمار مسائل اور بحرانوں کو جنم دیا ہے ابھی دنیا کرونا کی وبا کے نقصانات سے نمٹنے میں مصروف تھی کہ ان دو ممالک کے تصادم نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ایک طرف اگر روس تیل اور قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال ہے تو دوسری طرف یوکرین زرعی اجناس کی پیداوار کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ان دونوں ممالک کی کشیدگی نے پوری دنیا میں تیل گیس اور اناج کی فراہمی کو متاثر کیا ہے۔ اس  جنگ نے مشرق وسطی کے ممالک پر خصوصی اثرات مرتب کئے ہیں۔اس جنگ کی وجہ سے ان ممالک میں اچانک مہنگائی نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔

گندم تمام اناجوں میں خوراک کے حوالے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا آٹا اکثر ممالک میں خوراک کا لازمی جزو ہے۔ جیسے ہمارے ہاں خوراک کے لئے "دال روٹی" اور انگریزی میں "بریڈ اینڈ بٹر" کی تراکیب  میں گندم رچی بسی ہوئی نظر آتی ہے، اسی طرح ہر جگہ خوراک کا تصور گندم کے بغیر نا مکمل سمجھا جاتا ہے۔

گندم اور جو کی برآمدات کا ایک تہائی حصہ ان دو ممالک یعنی یوکرین اور روس سے آتا ہے۔ مشرق وسطی کے اکثر ممالک کا دارومدار اسی گندم پر ہے ۔مصر دنیا کا سب سے بڑا گندم درآمد کرنے والا ملک ہے۔ ان دنوں مصر زیادہ تر گندم روس اور یوکرین سے درآمد کر رہا تھا۔گندم کی ترسیل متاثر ہونے کی وجہ سے اچانک مصر میں نہ صرف خوراک کا شدید بحران پیدا ہوگیا ہے بلکہ اس کی معیشت کو بھی زبردست جھٹکا لگا ہے۔

مصر کی کرنسی بڑی تیزی سے گراوٹ کا سفر کر رہی ہے ۔ مصر کی طرح دیگر ممالک جیسے یمن ، شام ، عراق اور لبنان وغیرہ بھی اناج کی قلت کی وجہ سے شدید مہنگائی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ شام جو پہلے ہی جنگ اور خانہ جنگی سے بحرانی دور کا مسافر تھا اب روس اور یوکرین کی جنگ کی بدولت مزید ابتر صورتحال سے دوچار ہے ۔

یو این فوڈ پرائسز انڈیکس پوری دنیا میں خوراک سے متعلقہ اجناس کی اوسط قیمتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ان اجناس اس میں نباتاتی تیل، دودھ ، گوشت اور چینی وغیرہ کی قیمتیں شامل ہیں۔ اس انڈیکس کے مطابق خوردنی اشیاء کی قیمتیں جنگ سے پہلے ہی بلندترین سطح پر تھیں۔ فروری اور مارچ کے بعد ان کی قیمتوں میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ مزید 20 فیصد تک جانے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔

یو این فوڈ پرائسز انڈیکس کے مطابق فروری مارچ میں نباتاتی تیل کی قیمت میں 30 فیصد اضافہ ہوا جبکہ غلے کی قیمت میں 17 فیصد اضافہ سامنے آیا۔ چینی کی قیمت 7 فیصد ،گوشت 5 فیصد جبکہ دودھ کی قیمت صرف 3 فیصد بڑھی. اس انڈیکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر خوردنی اشیاء میں سب سے زیادہ نباتاتی تیل اور اناج اور سب سے زیادہ کم دودھ کے نرخ متاثر ہوئے ہیں۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں 15 فیصد تک اوپر جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں اپریل 2022 میں خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں 17 فیصد انفلیشن سامنے آئی۔

عام آدمی خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کیسے نمٹ سکتا ہے:

اس وقت مہنگائی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔ اس لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کے اثرات سے بچنے کی منصوبہ بندی کرے۔ ایک عام آدمی مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے اس کے اثرات کو کم سے کم کر سکتا ہے۔

گھر پر کھانا کھانے کی عادت ڈالیں ۔ ہوٹلوں کے مہنگے کھانوں اور فاسٹ فوڈ پر انحصار کم سے کم کریں ۔

 کچن گارڈننگ کی عادت اپنائیں ۔

 خریداری مکمل پلاننگ کے ساتھ کریں۔ غیر ضروری اشیاء خریدنے سے گریز کریں۔

 خریداری خالی پیٹ مت کریں نفسیاتی طور پر بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ خریداری کرنے میں آپ بےجاء کی خریداری نہیں کریں گے ۔

اشیائے خورونوش "بلک" خریدیں. اس سے فی یونٹ قیمت کم ہو جاتی ہے۔

 تیار شدہ خوراک خریدنے سے گریز کریں. چیزیں خود تیار کرنے سے ان کی تیاری کا خرچ منہا ہو جاتا ہے۔

منرل واٹر خریدنے کی بجائے پانی خود صاف کرلیں۔ جیسے ابال کرپینا اور دیسی طریقوں سے پانی کو فلٹر کرنا وغیرہ۔

اس قسم کے بےشمار اقدامات ہیں جو تھوڑی سی توجہ اور غوروفکر کرنے سے وضع کیے جا سکتے ہیں۔ سادہ طرزِ زندگی اور میانہ روی کی عادت اپنا شعار بنائیں۔ دنیا اس وقت ایک سخت دور سے گزر رہا ہے۔ لیکن وقت کی یہی سب سے اچھی خوبی ہے کہ جیسا بھی ہو کٹ ہی جاتا ہے ۔

متعلقہ عنوانات