Yusuf Kamran

یوسف کامران

  • 1938 - 1984

یوسف کامران کی نظم

    زندگی کا ساز

    تو کبھی راتوں کی تنہائی میں میرے پاس آ میرے کانوں سے مری خاموشیوں کے ساز سن تو مری آواز سن میری آنکھوں میں مچلتے موتیوں کے رنگ دیکھ تو کبھی قلب و نظر کی جنگ دیکھ دیکھ میں کن احتیاطوں کے سنہری جال کو درد میں ڈوبی ہوئی چھاؤں کے اس جنجال کو آرزوؤں کے جھروکوں میں سلگتی ہڈیوں کے گرد ...

    مزید پڑھیے

    کتابوں کا رسیا

    کتابوں کا رسیا وہ اک شخص جو چپ کی چادر لپیٹے بہت دل گرفتہ یہاں گھومتا ہے اسے میری جانب سے اتنا بتا دو کتابوں میں لفظوں کی جادوگری کے سوا کچھ نہیں ہے کتابیں جلا دو

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    گلی کے موڑ پر غلیظ نالیوں کی ریت میں سفید پانیوں میں ہاتھ ڈال کر وہ لڑکیاں نہ جانے ڈھونڈھتی ہیں کیا میں ٹافیوں کے پیکٹوں کی رنگتیں دکھا دکھا کے منتوں سماجتوں سے ہاتھ جوڑ جوڑ کے انہیں بلا کے اپنی سمت کہہ رہا ہوں کان میں تمہیں میں چار آنے والی قلفیاں خرید دوں مگر اس ایک شرط پر کوئی ...

    مزید پڑھیے

    بناوٹی دلاسے

    یہ آگ پانی ہوا یہ مٹی یہ واہموں کی کرشمہ سازی یہ علم و فن کے تمام قصے یہ عقل و دانش کی ساری باتیں یہ سب دلاسے بناوٹی ہیں میں دوستوں دشمنوں کی زد میں ہوں ہر کوئی پیش گوئیوں کے دراز قصے سنا رہا ہے کہ سب کو اپنے کرنسی نوٹوں کی فکر ہے ہر کوئی طلب اور رسد کے چکر میں اپنے بھاؤ چڑھا رہا ...

    مزید پڑھیے

    ریت پر لکیریں

    مرے سامنے آئنہ ہے کہ جس میں مجھے اپنی صورت نظر آ رہی ہے میں اپنے ہی چہرے پہ لکھی ہوئی داستانوں کو پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جن اجتماعی مسائل کو میں نے نگاہوں کے پھیلے ہوئے کھنڈروں میں سمویا ہوا ہے انہیں کون سمجھے انہیں کون جانے مجھے مردہ نسلوں کے اسلوب سے ہٹ کے کہنے کی پاداش ...

    مزید پڑھیے

    میں اور وہ

    میں تنہا تھا میں تنہا ہوں میں تنہا ہی رہوں شاید مرے کمرے کی دیواریں مجھے کھانے کو آتی ہیں ابھی کچھ دیر پہلے لوگ ملنے کو بہت آئے ابھی کچھ اور آئیں گے مرے اور ان کے سب کے درمیاں دیوار حائل ہے مگر وہ میں جسے چاہوں کہ آ جائے نہ آئے گی

    مزید پڑھیے

    بدن کی فصیلیں

    رات پھر یوں ہوا ادھ کھلے آسماں پر پرندوں کی چیخوں میں لپٹے ہوئے خواہشوں کے بدن تلملانے لگے میرے کانوں میں میرے دہکتے ہوئے خون کی رنگ کی نور کی سیٹیاں سی بجیں پھر ارادوں کی چھاتی میں نیلی رگیں منجمد ہو گئیں پھر بدن کی فصیلوں کے سائے بنے جنبشوں میں وہی سرسراہٹ ہوئی پھر مرے جسم کی ...

    مزید پڑھیے

    تفسیر

    میں یوسف ہوں مجھے بھی بھائیو کنویں میں پھنکواؤ کہ میں نے خواب میں دیکھے ہیں سورج چاند اور تارے مجھے کنویں میں پھنکواؤ کہ مجھے کو قافلے والے بھرے بازار میں بیچیں مجھے پھر قید میں ڈالے وہ جس کو مجھ سے رغبت ہے مجھے جب قید میں ڈالے تو میں خوابوں کی تعبیروں سے پھر وہ مرتبہ پاؤں کہ ...

    مزید پڑھیے

    تلاش

    میں تجھے ڈھونڈنے نکلا ہوں مری جان نظر جانتا ہوں کہ تری راہ گزر کون سی ہے دیکھتا بھی ہوں کہ تو پاس سے گزری ہے مرے پر جو چھونے کو بڑھوں تجھ کو تو یہ تند ہوا راہ میں اک کڑی دیوار سی بن جاتی ہے کس طرف جاؤں کوئی نقش کف پا بھی نہیں ان فضاؤں میں فقط تیری مہک پاتا ہوں راہ بھولا ہوں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    سانسوں کے بندھن

    سجا سجایا یہ گھر سلیقے کی ساری چیزیں تمام کمروں میں کس قرینے سے سج رہی ہیں یہ بند الماریوں میں رکھی ہوئی کتابیں یہ ٹیلی ویژن یہ ریڈیو یہ فریج یہ صوفے یہ میز کرسی یہ نرم بستر یہ بستروں کی گداز راتیں حسین صبحیں یہ میری بیوی یہ میرے بچے یہ ساری آسائشیں یہ رسمیں یہ سارے رشتے یہ سارے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2