ریت پر لکیریں
مرے سامنے آئنہ ہے کہ جس میں
مجھے اپنی صورت نظر آ رہی ہے
میں اپنے ہی چہرے پہ لکھی ہوئی داستانوں کو پڑھتا ہوں
اور سوچتا ہوں
کہ جن اجتماعی مسائل کو میں نے
نگاہوں کے پھیلے ہوئے کھنڈروں میں
سمویا ہوا ہے
انہیں کون سمجھے
انہیں کون جانے
مجھے مردہ نسلوں کے اسلوب سے ہٹ کے کہنے کی پاداش میں
اس زمانے نے مجرم بنایا
مری گفتگو کو معمہ بنایا
مری ذات میں دفن ہے اک زمانہ
اسے کوئی میری نگاہوں سے دیکھے