Yusuf Kamran

یوسف کامران

  • 1938 - 1984

یوسف کامران کی نظم

    پچھتاوا

    میں نے دیکھے ہیں وہ مرحلے کہ جہاں زندگی موت کا باہمی فاصلہ دو قدم بھی نہ تھا ایسے لمحوں کی ساری اذیت کو میں کس قدر حوصلوں سے سنبھالے رہا جب تلک مجھ میں جینے کے آزار سے منسلک سانس لینے کی خواہش رہی میری فکر و نظر کی سبھی کاوشیں تیرہ و تار موجوں سے لڑتی رہیں اور میں موت کی سیڑھیوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    موت

    وہ جنہیں آتا نہ تھا دنیا میں جینے کا شعار مر گئے تو بڑھ گیا ان کا وقار موت کتنی خوب صورت چیز ہے

    مزید پڑھیے

    پالتو جانور

    ایک چھوٹے سے قد کا ہتھوڑا لیے میں بھی اک پالتو جانور کی طرح ورکشاپ کی خندق میں پھینکا گیا میرے اجداد نے ان روایات کو زندہ رکھنے کی خاطر مرے جسم پر ٹائروں اور سڑکوں کی مٹی ملی ٹین کی چھت کے نیچے بدن پک گیا جسم و جاں بے اماں الجھنوں میں گھرا اب مشینوں کے پرزوں میں دن رات یوں موبل ...

    مزید پڑھیے

    دو پیادے

    سردیوں کے موسم میں پچھلی رات کو چھت پر ہم جو ایک دوجے سے چاندنی کی بارش میں بے زبان جذبوں کی خوشبوؤں سے ملتے تھے حسن دل ربا تیرا لفظ کی حقیقت سے کتنا بے تعلق تھا ان کہا سنا سب کچھ لمحۂ مسرت تھا جب سے لب کشائی کے سلسلے ہوئے جاری تیری میری بحثوں نے ان کہا سنا سب کچھ منطقوں دلیلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    وطن کے لیے دعا

    یہاں نہ کوئی درخت ہوگا نہ پھول پتے نہ گھاس شبنم نہ چاند راتوں کو اپنا چہرہ دکھا سکے گا نہ دن کو سورج ہوا سلاخوں سے سر پٹخ کر گلے میں پھندا لیے یوں ہی در بدر پھرے گی یہ میری دھرتی یوں ہی رہے گی خزاں ہواؤں نے اس کی شادابیوں کے منظر اجاڑنے کو وہ گل کھلائے قضا بھی قسطوں میں آ رہی ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    ازل سے ابد

    میرے ہاتھوں نے تجھ کو چھوا تک نہیں مجھ کو سورج کی اس روشنی کی قسم تو کہیں بھی رہے میں کہیں بھی رہوں دل ترے پاس ہے میں ازل سے ابد تک ترے ساتھ ہوں تو مرے ساتھ ہے

    مزید پڑھیے

    اپنی ذات کی چوری

    کل شام نہر کی پٹری کے ساتھ ساتھ میں اپنے ناتواں کندھوں پر ایک شکستہ بوری اٹھائے جا رہا تھا کہ چیخ و پکار شروع ہوئی پکڑو پکڑو قاتل قاتل نہر پر متعین پولیس چوکی کے مستعد عملے نے سنگینوں سے میرا تعاقب کیا میں اپنی تمام تر قوت سے بھاگنے کے باوجود چند ہی لمحوں میں ان کی آہنی گرفت میں ...

    مزید پڑھیے

    شہر سے دور

    آؤ دور چلیں پیپل کی ہری ہری چھاؤں میں بیٹھ کے دل بہلائیں شہر کی اس گہما گہمی میں اب تو جی گھبراتا ہے رانی دیکھو اس نگری میں نہ کوئی کرشن نہ رادھا ہے یہ تو شہر ہے پیاری کاروباری دنیا ہے من سے خالی تن والے ہیں دھن ہی ان کا گہنا ہے جھوٹی رسمیں جھوٹے بندھن جھوٹا ان کا پیار کاروباری ...

    مزید پڑھیے

    باخبر لڑکیاں

    کبھی لڑکیوں کے تنومند جسموں میں سورج کی تابانیاں دیکھنے کو مکانوں کی چھت پر کھڑے ہو کے یارو جو ہم ننگے پاؤں کے تلوے جلاتے تو اپنے بدن کی حرارت سے ساری نسیں پھڑپھڑاتیں مگر لڑکیوں کو خبر تک نہ ہوتی اگر اب مکانوں کی اونچی چھتوں پر کھڑے ہو کے تم نے تنومند جسموں میں سورج کی تابانیاں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی

    زندگی کیا ہے میں کچھ سوچ کے خاموش سا ہوں لوگ کہتے ہیں عناصر کا ظہور ترتیب میں سمجھتا ہوں کہ اک وہم مسلسل کے سوا زندگی کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں لیکن اجداد کی حکمت سے تفاوت توبہ اپنے افکار کی جدت مجھے منظور نہیں لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2