بدن کی فصیلیں
رات پھر یوں ہوا
ادھ کھلے آسماں پر پرندوں کی چیخوں میں لپٹے ہوئے
خواہشوں کے بدن
تلملانے لگے
میرے کانوں میں میرے دہکتے ہوئے خون کی
رنگ کی نور کی سیٹیاں سی بجیں
پھر ارادوں کی چھاتی میں نیلی رگیں منجمد ہو گئیں
پھر بدن کی فصیلوں کے سائے بنے
جنبشوں میں وہی سرسراہٹ ہوئی
پھر مرے جسم کی دودھیا چاندنی
ہر طرف چھا گئی
اور میں
جسم و جاں کی شکن در شکن الجھنوں کو سمیٹے ہوئے
سو گیا
رات پھر یوں ہوا