Vivek Bijnori

وویک بجنوری

وویک بجنوری کی غزل

    ہم کو شکستہ حال کے دکھ بھوگنے پڑے

    ہم کو شکستہ حال کے دکھ بھوگنے پڑے یعنی تیرے وصال کے دکھ بھوگنے پڑے ہر سال تجھ سے دوریاں بڑھتی چلی گئیں ہم کو ہر ایک سال کے دکھ بھوگنے پڑے اپنے جواب پر ہمیں شرمندگی ہوئی لیکن ترے سوال کے دکھ بھوگنے پڑے پہلے تو ہم نے اس کی بہت دیکھ بھال کی پھر اس کی دیکھ بھال کے دکھ بھوگنے پڑے ہر ...

    مزید پڑھیے

    شب محشر تری باہوں کے طلب گار رہے

    شب محشر تری باہوں کے طلب گار رہے ہم ترے اپنوں میں ہو کر بھی تو اغیار رہے ایک میں ہوں جو ہمیشہ سے مخالف ٹھہرا ایک تم ہو جو ہمیشہ سے طرف دار رہے ساتھ ہو کر بھی تو ہم ساتھ نہیں ہیں مانو ایک آنگن ہو مگر بیچ میں دیوار رہے ایک اس سے ہی نہیں نبھ سکا رشتہ ہم سے یوں تو ہم سارے زمانہ سے ...

    مزید پڑھیے

    نئی اک نظم کا عنوان رکھوں

    نئی اک نظم کا عنوان رکھوں پھر اس میں وصل کے امکان رکھوں ہو مشکل جس سے مجھ کو مار پانا کسی چڑیا میں اپنی جان رکھوں ملے کوئی جو میرا دھیان رکھے میں اس کا حد سے زیادہ دھیان رکھوں ذرا دیکھوں کہ کیا کیا بولتی ہے کسی دیوار پر یہ کان رکھوں بڑھا دوں مشکلیں دنیا کی ایسے میں خود کو ...

    مزید پڑھیے

    سوچو ایسا ہوا تو کیا ہوگا

    سوچو ایسا ہوا تو کیا ہوگا میں ہی تنہا ہوا تو کیا ہوگا پیار کر لوں مگر مجھے ڈر ہے پھر سے دھوکا ہوا تو کیا ہوگا مرض یہ لا علاج لگتا ہے میں نہ اچھا ہوا تو کیا ہوگا لوگ کرتے ہیں پیار جسموں سے تو بھی ان سا ہوا تو کیا ہوگا ٹوٹ کر جو بکھر گیا سوچو گر وہ شیشہ ہوا تو کیا ہوگا تم مجھے منع ...

    مزید پڑھیے

    فراق یار میں خود کو تمام کرتے ہوئے

    فراق یار میں خود کو تمام کرتے ہوئے میں رو رہا ہوں خوشی غم کے نام کرتے ہوئے یوں تیری یاد ہے آتی کہ جیسے گلیوں سے برات گزرے کوئی دھوم دھام کرتے ہوئے وہی تو ہوتا ہے ہر پل مرے تخیل میں میں شعر کہتا ہوں اس سے کلام کرتے ہوئے میں قیس ہوں سو مجھے دشت میں ہی رہنے دو نہیں جی پاؤں گا یہ تام ...

    مزید پڑھیے

    ابھی سرور جام ہے تو ہوش ہے قرار ہے

    ابھی سرور جام ہے تو ہوش ہے قرار ہے یہ وحشتوں کا دور ہے نہ عشق ہے نہ پیار ہے وہ لوٹ آئے گا اگر اڑان ختم ہو گئی ابھی تو آسماں میں ہے ابھی تو دھن سوار ہے بھٹک رہی ہے روح کیوں کبھی نہیں لگا تمہیں چکانا باقی رہ گیا جو جسم کا ادھار ہے لو مل گیا نہ خاک میں یہ حشر ہے شریر کا وہ چار اینٹیں ...

    مزید پڑھیے

    کسی خیال کو اشعار میں پروتے ہوئے

    کسی خیال کو اشعار میں پروتے ہوئے سسک رہا تھا میں کاغذ پہ حرف بوتے ہوئے مجھے یہ غم نہیں محفل میں ہو کے تنہا ہوں مجھے یہ دکھ ہے میں تنہا ہوں تیرے ہوتے ہوئے عجیب خواب دکھائی دیا مجھے کل شب میں ہڑبڑا کے اٹھا ڈر رہا تھا سوتے ہوئے وہی جو مجھ کو قسم دیتا تھا نہ رونے کی مجھے وہ چھوڑ گیا ...

    مزید پڑھیے

    نہیں معلوم کتنی بڑھ گئی ہے

    نہیں معلوم کتنی بڑھ گئی ہے مگر سچ ہے اداسی بڑھ گئی ہے یہ حاصل ہے قریب آنے کا اپنے ہمارے بیچ دوری بڑھ گئی ہے تمہاری یاد کا موسم ہے بدلا اچانک کتنی سردی بڑھ گئی ہے تمہارے بعد سب کچھ ٹھیک سا ہے فقط تھوڑی سی داڑھی بڑھ گئی ہے خموشی بڑھ گئی ہے کچھ دنوں سے یقیں مانو کہ کافی بڑھ گئی ...

    مزید پڑھیے

    اگر میں سچ کہوں ایسا تھا پہلے

    اگر میں سچ کہوں ایسا تھا پہلے وہی رب تھا وہی دنیا تھا پہلے مجھے کیوں غیر جیسا لگ رہا ہے وہی اک شخص جو میرا تھا پہلے جو میری جان کا دشمن بنا ہے مجھے وہ جان ہی کہتا تھا پہلے مری آنکھوں کے اندر مر گیا ہے وہی اک خواب جو زندہ تھا پہلے یہ جو خاموش سا اک آدمی ہے بڑا شیطان سا بچہ تھا ...

    مزید پڑھیے

    یہ ملی اعتبار کی قیمت

    یہ ملی اعتبار کی قیمت لگ گئی میرے پیار کی قیمت مجھ سے اک جنگ جیتنی تھی اسے سو لگی میری ہار کی قیمت ہم کو اک پھول تک نصیب نہیں ہم سے پوچھو بہار کی قیمت آپ کو پیار مل گیا اپنا آپ کیا جانو پیار کی قیمت آ کے باہوں میں بھر لیا اس نے مل گئی انتظار کی قیمت

    مزید پڑھیے