ابھی سرور جام ہے تو ہوش ہے قرار ہے

ابھی سرور جام ہے تو ہوش ہے قرار ہے
یہ وحشتوں کا دور ہے نہ عشق ہے نہ پیار ہے


وہ لوٹ آئے گا اگر اڑان ختم ہو گئی
ابھی تو آسماں میں ہے ابھی تو دھن سوار ہے


بھٹک رہی ہے روح کیوں کبھی نہیں لگا تمہیں
چکانا باقی رہ گیا جو جسم کا ادھار ہے


لو مل گیا نہ خاک میں یہ حشر ہے شریر کا
وہ چار اینٹیں دیکھ لو وہ میری ہی مزار ہے


اسے کہا بھی جائے کیا ابھی نہیں سنے گا وہ
نیا نیا سا شوق ہے نیا نیا سا پیار ہے