فراق یار میں خود کو تمام کرتے ہوئے
فراق یار میں خود کو تمام کرتے ہوئے
میں رو رہا ہوں خوشی غم کے نام کرتے ہوئے
یوں تیری یاد ہے آتی کہ جیسے گلیوں سے
برات گزرے کوئی دھوم دھام کرتے ہوئے
وہی تو ہوتا ہے ہر پل مرے تخیل میں
میں شعر کہتا ہوں اس سے کلام کرتے ہوئے
میں قیس ہوں سو مجھے دشت میں ہی رہنے دو
نہیں جی پاؤں گا یہ تام جھام کرتے ہوئے
اے عشق مان لیا تھوڑی اپنی غلطی تھی
ذرا سا سوچ تو جینا حرام کرتے ہوئے