اگر میں سچ کہوں ایسا تھا پہلے

اگر میں سچ کہوں ایسا تھا پہلے
وہی رب تھا وہی دنیا تھا پہلے


مجھے کیوں غیر جیسا لگ رہا ہے
وہی اک شخص جو میرا تھا پہلے


جو میری جان کا دشمن بنا ہے
مجھے وہ جان ہی کہتا تھا پہلے


مری آنکھوں کے اندر مر گیا ہے
وہی اک خواب جو زندہ تھا پہلے


یہ جو خاموش سا اک آدمی ہے
بڑا شیطان سا بچہ تھا پہلے


وہ جس کو آپ پتھر کہہ رہے ہیں
حقیقت میں وہی ٹوٹا تھا پہلے


یہ جو سوکھی ہوئی آنکھیں ہیں میری
یہاں اشکوں کا اک دریا تھا پہلے


لگائی ہے سیاہی دیپکوں نے
مرا کمرہ بڑا اجلا تھا پہلے


یہ میرا حال جو ہے عشق سے ہے
ہاں میں سچ میں بہت اچھا تھا پہلے