عروج قادری کی غزل

    میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب

    میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب دھیمی دھیمی آنچ کہیے یا مسلسل التہاب رات وہ آئے تھے چہرے سے نقاب الٹے ہوئے میں تو حیراں تھا نکل آیا کدھر سے آفتاب دل پہ ان کے روئے روشن کا پڑا ہے جب سے عکس دل نہیں ہے بلکہ سینے میں ہے روشن ماہتاب ان کے دیوانوں کا استقبال ہے دار و رسن کھنچ گیا ...

    مزید پڑھیے

    نہ راہ رو ہیں اکٹھا نہ راہ داں پیدا

    نہ راہ رو ہیں اکٹھا نہ راہ داں پیدا تو کیا زمین سے ہو جائے کارواں پیدا مشقتوں سے نہ گھبرا نہ زحمتوں سے کبھی کہ پھول ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیاں پیدا وہ خلق و امر کے مالک ہیں وہ اگر چاہیں تو اک اشارے سے ہوتے ہیں سو جہاں پیدا زمیں کو گردش افلاک سے نجات نہیں “بہ ہر زمیں کہ رسیدیم ...

    مزید پڑھیے

    شہیدوں کا ترے شہرہ زمیں سے آسماں تک ہے

    شہیدوں کا ترے شہرہ زمیں سے آسماں تک ہے فلک سے بلکہ آگے بڑھ کے تیرے آستاں تک ہے جمال جاں فزا کا ان کے دل کش دل ربا جلوہ زمیں سے آسماں تک ہے مکاں سے لا مکاں تک ہے رہیں سب مطمئن گلشن میں اپنے آشیانوں سے کہ جولاں گاہ بجلی کی ہمارے آشیاں تک ہے نصیحت پر عمل خود بھی تو کرنا چاہئے ...

    مزید پڑھیے

    اس سینے کی وقعت ہی کیا ہے جس سینے میں تیرا نور نہیں

    اس سینے کی وقعت ہی کیا ہے جس سینے میں تیرا نور نہیں اس کاسۂ سر کی کیا قیمت جو سنگ جنوں سے چور نہیں اس دل کو کوئی کیوں دل مانے جو جذب و جنوں سے خالی ہو اس شمع کو ہم کیوں شمع کہیں جو پرتو شمع طور نہیں یہ کیف و نشاط افزا راتیں یہ عیش و طرب کی سوغاتیں جس شے کے عوض میں ملتی ہیں اس شے کا ...

    مزید پڑھیے

    حیات ہے مرے دل کی کسی کی زندہ یاد

    حیات ہے مرے دل کی کسی کی زندہ یاد اسی سے ہے یہ درخشاں اسی سے ہے آباد وفا نہ ہو تو محبت کا اعتبار نہیں جفا نہ ہو تو ہے یہ دلبری بھی بے بنیاد تمام جسم ہے فاسد تمام جسم خراب اگر نہ جائے کسی آدمی کے دل کا فساد اب ایک قصۂ ماضی ہے ظلم چنگیزی کہ ہو گئے ہیں نئی قسم کے ستم ایجاد مجھے بتاؤ ...

    مزید پڑھیے

    یہ عشق کی ہے راہ نہ یوں ڈگمگا کے چل

    یہ عشق کی ہے راہ نہ یوں ڈگمگا کے چل ہمت کو اپنی تول قدم کو جما کے چل راہ وفا ہے اس میں نہ یوں منہ بنا کے چل کانٹوں کو روند روند کے تو مسکرا کے چل شمع یقیں کی لو کو ذرا اور تیز کر ظلمت میں رہروؤں کو بھی رستہ دکھا کے چل گردش فلک کی تیز ہے رفتار تیری سست منزل ہے دور اپنے قدم اب بڑھا کے ...

    مزید پڑھیے

    ترے دریدہ گریباں میں یہ رفو کیا ہے

    ترے دریدہ گریباں میں یہ رفو کیا ہے تجھے خبر نہیں مجنوں کی آبرو کیا ہے مجھے تو آپ کی آنکھوں نے کر دیا سرشار مجھے خبر ہی نہیں جام کیا سبو کیا ہے نہ جانے ہوگا بھی دونوں میں اتفاق کبھی مزاج حسن ہے کیا میری آرزو کیا ہے مجاز ہے کہ حقیقت ثواب ہے کہ گناہ پتہ نہیں کہ یہ دنیائے رنگ و بو ...

    مزید پڑھیے

    تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں

    تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں ترے خیال سے تسکین پا رہا ہوں میں خیال و وہم سے اونچی بہت ہے تیری ذات تری صفات کا نقشہ جما رہا ہوں میں مرا وجود بھی پرتو ہے تیری ہستی کا دل حزیں میں ترا نور پا رہا ہوں میں یہ کون ہے کہ معیت کا لطف حاصل ہے تمام عالم امکاں پہ چھا رہا ہوں میں ترے کرم کی ...

    مزید پڑھیے

    بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں

    بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں ہمارے سوا نکتہ داں اور بھی ہیں یہ دنیا تو مٹ جانے والی ہے لیکن زمیں اور بھی آسماں اور بھی ہیں یہ دنیا تو اک ذرۂ مختصر ہے مکیں اور بھی ہیں مکاں اور بھی ہیں نہ تنہا مرا کارواں راہ میں ہے رہ عشق میں کارواں اور بھی ہیں نہ ہو مطمئن ایک پتھر ہٹا کر کہ ...

    مزید پڑھیے

    آ گیا وقت کہ ہو دعوت عام اے ساقی

    آ گیا وقت کہ ہو دعوت عام اے ساقی بھیج دے چاروں طرف اپنا پیام اے ساقی کھینچ لائے گا ہزاروں کو ترے پاس یہاں یہ ترا حسن نظر حسن کلام اے ساقی گھر لٹانے کی نہیں گھر کو بچانے کی ہے فکر کس قدر عشق ہے میرا ابھی خام اے ساقی کاسۂ دل ہے ترے سامنے اس کو بھر دے مے انگور تو ہے مجھ پہ حرام اے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2