یہ عشق کی ہے راہ نہ یوں ڈگمگا کے چل

یہ عشق کی ہے راہ نہ یوں ڈگمگا کے چل
ہمت کو اپنی تول قدم کو جما کے چل


راہ وفا ہے اس میں نہ یوں منہ بنا کے چل
کانٹوں کو روند روند کے تو مسکرا کے چل


شمع یقیں کی لو کو ذرا اور تیز کر
ظلمت میں رہروؤں کو بھی رستہ دکھا کے چل


گردش فلک کی تیز ہے رفتار تیری سست
منزل ہے دور اپنے قدم اب بڑھا کے چل


دشمن جو دوست کے ہیں وہ ناراض ہیں تو ہوں
سینے پہ زخم ان کی جفاؤں کا کھا کے چل


تیروں کی باڑھ آنے دے اپنے قدم نہ روک
ان کی خوشی یہی ہے تو خوں میں نہا کے چل


بہتا ہے خوں تو بہنے دے بہنے کی چیز ہے
قطروں سے خون سرخ کے گلشن کھلا کے چل


ہمت کے جام صبر کے مینا سے نوش کر
نقش قدم سے اپنے تو رستہ بنا کے چل


جلتا رہے بس اس کی تمنا کا اک دیا
اس کے سوا ہیں جتنے دئے سب بجھا کے چل


اے میر کارواں تری خدمت میں عرض ہے
جو گر رہے ہیں راہ میں ان کو اٹھا کے چل


رستہ کٹھن ہے تو ہے بہت ناتواں عروجؔ
سلطان کائنات کو حامی بنا کے چل