نہ راہ رو ہیں اکٹھا نہ راہ داں پیدا

نہ راہ رو ہیں اکٹھا نہ راہ داں پیدا
تو کیا زمین سے ہو جائے کارواں پیدا


مشقتوں سے نہ گھبرا نہ زحمتوں سے کبھی
کہ پھول ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیاں پیدا


وہ خلق و امر کے مالک ہیں وہ اگر چاہیں
تو اک اشارے سے ہوتے ہیں سو جہاں پیدا


زمیں کو گردش افلاک سے نجات نہیں
“بہ ہر زمیں کہ رسیدیم آسماں پیدا”


تمہیں بہار ہو میرے لئے کہ ہوتا ہے
تمہارے عارض گل گوں سے گلستاں پیدا


بتاؤ کون ہے جس کا جمال جاں پرور
ب ہر مکاں ہے نمودار و ہر زماں پیدا


عروجؔ تو نہ ہو غمگیں ہجوم اعدا سے
اسی ہجوم سے ہوتے ہیں مہرباں پیدا