ترے دریدہ گریباں میں یہ رفو کیا ہے

ترے دریدہ گریباں میں یہ رفو کیا ہے
تجھے خبر نہیں مجنوں کی آبرو کیا ہے


مجھے تو آپ کی آنکھوں نے کر دیا سرشار
مجھے خبر ہی نہیں جام کیا سبو کیا ہے


نہ جانے ہوگا بھی دونوں میں اتفاق کبھی
مزاج حسن ہے کیا میری آرزو کیا ہے


مجاز ہے کہ حقیقت ثواب ہے کہ گناہ
پتہ نہیں کہ یہ دنیائے رنگ و بو کیا ہے


لہو تو وہ ہے جو ابلے شہید کی رگ سے
رگ گلو سے نہ ابلا تو پھر لہو کیا ہے


مجھے ہے جرم محبت کا اعتراف عروجؔ
مری سزا میں کوئی بحث و گفتگو کیا ہے


بڑے بڑوں کے قدم جس مقام پر لرزیں
عروجؔ تو ہی بتا اس جگہ پہ تو کیا ہے