تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں

تصورات کی دنیا بسا رہا ہوں میں
ترے خیال سے تسکین پا رہا ہوں میں


خیال و وہم سے اونچی بہت ہے تیری ذات
تری صفات کا نقشہ جما رہا ہوں میں


مرا وجود بھی پرتو ہے تیری ہستی کا
دل حزیں میں ترا نور پا رہا ہوں میں


یہ کون ہے کہ معیت کا لطف حاصل ہے
تمام عالم امکاں پہ چھا رہا ہوں میں


ترے کرم کی نہایت نہیں مرے مالک
کہ مشت خاک کو کندن بنا رہا ہوں میں


جلو میں جس کی ہو امن و سکوں کی گل پاشی
وہ انقلاب زمانے میں لا رہا ہوں میں


ترے کلام مقدس سے روشنی لے کر
اندھیری رات میں شمعیں جلا رہا ہوں میں


مری بساط ہی کیا ہے جہاں کے رکھوالے
ترے سہارے پہ ہمت دکھا رہا ہوں میں