آ گیا وقت کہ ہو دعوت عام اے ساقی

آ گیا وقت کہ ہو دعوت عام اے ساقی
بھیج دے چاروں طرف اپنا پیام اے ساقی


کھینچ لائے گا ہزاروں کو ترے پاس یہاں
یہ ترا حسن نظر حسن کلام اے ساقی


گھر لٹانے کی نہیں گھر کو بچانے کی ہے فکر
کس قدر عشق ہے میرا ابھی خام اے ساقی


کاسۂ دل ہے ترے سامنے اس کو بھر دے
مے انگور تو ہے مجھ پہ حرام اے ساقی


ان سے بچنا ہے ترے لطف و کرم پر موقوف
ہیں رہ عشق میں پھیلے ہوئے دام اے ساقی


کب نئے نظم سے دنیا کو ملے گی راحت
کتنا مہلک ہے یہ فرسودہ نظام اے ساقی


دور گوشے میں ہے افتادہ و دلگیر عروجؔ
آ کبھی اس کی طرف بادہ بہ جام اے ساقی