اس سینے کی وقعت ہی کیا ہے جس سینے میں تیرا نور نہیں

اس سینے کی وقعت ہی کیا ہے جس سینے میں تیرا نور نہیں
اس کاسۂ سر کی کیا قیمت جو سنگ جنوں سے چور نہیں


اس دل کو کوئی کیوں دل مانے جو جذب و جنوں سے خالی ہو
اس شمع کو ہم کیوں شمع کہیں جو پرتو شمع طور نہیں


یہ کیف و نشاط افزا راتیں یہ عیش و طرب کی سوغاتیں
جس شے کے عوض میں ملتی ہیں اس شے کا زیاں منظور نہیں


مردہ بھی نہیں یہ زندہ ہے مالک بھی نہیں یہ بندہ ہے
انسان نرالی خلقت ہے مختار نہیں مجبور نہیں


انسان کی عظمت اس پہ فدا اک بندۂ خاکی وہ بھی تھا
جو عرش الٰہی چھو آیا پھر بھی وہ ذرا مغرور نہیں


اس جان جہاں کی خوشنودی مطلوب جنوں مقصود سفر
سوچو تو یہ منزل دور بھی ہے سوچو تو یہ منزل دور نہیں


ہو شوق سفر تو راہ سفر ہر سمت کھلی ہے تیرے لیے
دل تیرا طلب سے خالی ہے تو ورنہ یہاں معذور نہیں


ہم پر وہ عروجؔ خستہ جگر تلوار اٹھاتے ہیں لیکن
اس وار سے تسکیں کیا ہوگی جو وار ابھی بھرپور نہیں