حیات ہے مرے دل کی کسی کی زندہ یاد
حیات ہے مرے دل کی کسی کی زندہ یاد
اسی سے ہے یہ درخشاں اسی سے ہے آباد
وفا نہ ہو تو محبت کا اعتبار نہیں
جفا نہ ہو تو ہے یہ دلبری بھی بے بنیاد
تمام جسم ہے فاسد تمام جسم خراب
اگر نہ جائے کسی آدمی کے دل کا فساد
اب ایک قصۂ ماضی ہے ظلم چنگیزی
کہ ہو گئے ہیں نئی قسم کے ستم ایجاد
مجھے بتاؤ جگہ وہ جہاں ملے مجھ کو
جگر کا سوز نظر کا حجاب دل کی کشاد
مرے یقیں کی ہے بنیاد عقل سے محکم
تمہارے شک و تردد کی سست ہے بنیاد
عروجؔ فکر اسیری سے ذہن خالی کر
بلا سے جسم ہے محبوس دل تو ہے آزاد