میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب
میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب دھیمی دھیمی آنچ کہیے یا مسلسل التہاب رات وہ آئے تھے چہرے سے نقاب الٹے ہوئے میں تو حیراں تھا نکل آیا کدھر سے آفتاب دل پہ ان کے روئے روشن کا پڑا ہے جب سے عکس دل نہیں ہے بلکہ سینے میں ہے روشن ماہتاب ان کے دیوانوں کا استقبال ہے دار و رسن کھنچ گیا ...