میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب

میں بتاؤں عشق کیا ہے ایک پیہم اضطراب
دھیمی دھیمی آنچ کہیے یا مسلسل التہاب


رات وہ آئے تھے چہرے سے نقاب الٹے ہوئے
میں تو حیراں تھا نکل آیا کدھر سے آفتاب


دل پہ ان کے روئے روشن کا پڑا ہے جب سے عکس
دل نہیں ہے بلکہ سینے میں ہے روشن ماہتاب


ان کے دیوانوں کا استقبال ہے دار و رسن
کھنچ گیا جو دار پر ان کے لئے وہ کامیاب


کیا مری حمد و ثنا اور کیا مرا شکر و سپاس
ان کے احساں بے شمار اور ان کی نعمت بے حساب


رات کا پچھلا پہر تھا اور آنسو کی جھڑی
میرا دل تھا شاید ان کی بارگہہ میں باریاب


عشق کی دنیا میں ایسے حادثوں سے کیا مفر
آیا قاصد کا جنازہ میرے نامے کا جواب


یہ محل میری تمناؤں کا اے احمد عروجؔ
جیسے بچوں کا گھروندا جیسے دیوانے کا خواب