تشنہ اعظمی کی غزل

    جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ

    جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ کیا زمانہ ہے کہ پودوں کو شجر کہتے ہیں لوگ ایک آنسو بھی نہ ٹپکا آج تک جس آنکھ سے کیا قیامت ہے اسی کو چشم تر کہتے ہیں لوگ اب زمانے کی کسوٹی کا یہی معیار ہے سیپ سے نکلا نہیں پھر بھی گہر کہتے ہیں لوگ مصلحت کی بیڑیوں میں جب سے جکڑی ہے ...

    مزید پڑھیے

    ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے

    ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے کیا کروں نہ مانے جب دل مرا منانے سے جل اٹھا تھا پل بھر کو آپ کی عنایت سے بجھ گیا چراغ دل آپ کے بجھانے سے وہ تو لاابالی ہے کیا اسے خبر ہوگی ہم پہ کیا گزرتی ہے حال دل چھپانے سے برہمی میں چہرے کو کیوں بگاڑ رکھا ہے یہ حسین لگتا ہے صرف مسکرانے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے

    نہیں روزے سے ہیں تو کیا اداکاری تو کرنی ہے امیر شہر کی دعوت ہے افطاری تو کرنی ہے کہاں ہے شیروانی اور ٹوپی لائیے بیگم ابھی دن ہے مگر پہلے سے تیاری تو کرنی ہے ابھی باقی ہے کچھ لوگوں میں جو ایمانداری کی کسی بھی طرح سے وہ دور بیماری تو کرنی ہے کسی بھی طرح رشوت دے کے پکی نوکری کر ...

    مزید پڑھیے

    وہی کون و مکاں اپنا متاع زندگی اپنی

    وہی کون و مکاں اپنا متاع زندگی اپنی جہاں تک لے کے جاتی ہے مجھے آوارگی اپنی اگر رسوائیوں تک بات ہوتی تو غنیمت تھی تماشا بن گئی ہے آج ہر سو زندگی اپنی پلٹ کر میں نے دوبارہ کبھی وہ در نہیں دیکھا جہاں رسوا ہوئی اک بار بھی دیوانگی اپنی مقابل ہے مرے فتنہ گری اب تو خدا جانے کہاں تک ...

    مزید پڑھیے

    مری بے خواب ان آنکھوں کے منظر بول پڑتے ہیں

    مری بے خواب ان آنکھوں کے منظر بول پڑتے ہیں یہ چادر بول پڑتی ہے یہ بستر بول پڑتے ہیں بھلا کیسے چھپاؤں اپنا یہ پر درد افسانہ میں چپ رہتا ہوں تو غم کے سمندر بول پڑتے ہیں بجائے آنسوؤں کے خون برساتی ہیں یہ آنکھیں پرانے زخم جب اس دل کے اندر بول پڑتے ہیں ہے جس کا نام سچائی بس اس کے حق ...

    مزید پڑھیے

    جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے

    جہاں کو بانٹ کر خوشیاں جو مسکانوں میں رہتے تھے وہ محلوں میں نہیں تشنہؔ بیابانوں میں رہتے تھے ہمارے گھر میں لایا کون ان مصنوعی پھولوں کو یہاں پہلے تو اصلی پھول گل دانوں میں رہتے تھے انہیں بھی شوق دنیا نے غلام اپنا بنا ڈالا ہمیشہ غرق جو تسبیح کے دانوں میں رہتے تھے اتر آئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں

    جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں ہم دریا برد گوہر نایاب بھی تو ہیں یوں ہی نہیں ہیں لعل و گہر اپنے ہاتھ میں دریا کے ہم وجود میں غرقاب بھی تو ہیں تم کو تو صرف موجوں پہ حاصل ہے برتری دریا کوئے یار میں گرداب بھی تو ہیں جائز ہیں بے قراریاں لیکن جناب دل اس کی نوازشوں کے کچھ آداب ...

    مزید پڑھیے

    قلب ویران سے رنگین غزل مانگے ہے

    قلب ویران سے رنگین غزل مانگے ہے کیسی دنیا ہے جو صحرا سے کنول مانگے ہے زندگی اب تو ہر اک لمحہ خدا جانے کیوں مجھ سے پیچیدہ سوالات کے حل مانگے ہے یہ نئی طرز سیاست یہ زبوں حالی اب ہم سے ماتھے پہ کچھ افکار کے بل مانگے ہے جب سے آوارہ مزاجی کو قرار آیا ہے تیری آغوش میں گزرے ہوئے پل ...

    مزید پڑھیے

    وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک

    وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک لیا جائے گا آخر کار ہم سے امتحاں کب تک اٹھا کرتا رہے گا یوں نشیمن سے دھواں کب تک ہمارے آشیانوں پر گریں گی بجلیاں کب تک ضمیر اہل سیاست کا بھلا کس روز جاگے گا جلے گا نفرتوں کی آگ میں ہندوستاں کب تک نہ سمجھاؤ ہمیں منشور اپنے بس یہ بتلا ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بڑھ کر یہ مقدر نہ سنورنا چاہے

    اس سے بڑھ کر یہ مقدر نہ سنورنا چاہے بس یہ حسرت ہے کہ مجھ پر کوئی مرنا چاہے راستہ روک لیا کرتے ہیں بادل اس کا چاند جب بھی مرے آنگن میں اترنا چاہے ٹھیس لگتی ہے اسی وقت ہمیشہ مجھ کو دل کے زخموں میں کوئی زخم جو بھرنا چاہے حال دل کیسے سناؤں میں اسے اے یارو میرے جذبات کی جو قدر نہ کرنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3