اس سے بڑھ کر یہ مقدر نہ سنورنا چاہے

اس سے بڑھ کر یہ مقدر نہ سنورنا چاہے
بس یہ حسرت ہے کہ مجھ پر کوئی مرنا چاہے


راستہ روک لیا کرتے ہیں بادل اس کا
چاند جب بھی مرے آنگن میں اترنا چاہے


ٹھیس لگتی ہے اسی وقت ہمیشہ مجھ کو
دل کے زخموں میں کوئی زخم جو بھرنا چاہے


حال دل کیسے سناؤں میں اسے اے یارو
میرے جذبات کی جو قدر نہ کرنا چاہے


ٹوٹتے ٹوٹتے اب آج مری آنکھوں میں
ایک ہی خواب مگر وہ بھی بکھرنا چاہے


کانپ جاتا ہے مصور کا قلم اے تشنہؔ
رنگ جب بھی مری تصویر میں بھرنا چاہے