وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک

وطن کے جاں نثاروں کو ملیں گی بیڑیاں کب تک
لیا جائے گا آخر کار ہم سے امتحاں کب تک


اٹھا کرتا رہے گا یوں نشیمن سے دھواں کب تک
ہمارے آشیانوں پر گریں گی بجلیاں کب تک


ضمیر اہل سیاست کا بھلا کس روز جاگے گا
جلے گا نفرتوں کی آگ میں ہندوستاں کب تک


نہ سمجھاؤ ہمیں منشور اپنے بس یہ بتلا دو
ہمیں بھر پیٹ مل پائیں گی آخر روٹیاں کب تک


اثر کب تک کریں گی زہر میں ڈوبی یہ تقریریں
دلوں میں آپ رکھیں گے ہمارے دوریاں کب تک


بھلا کس روز ٹوٹیں گی روایت کی یہ زنجیریں
جہیزوں کے لئے جلتی رہیں گی بیٹیاں کب تک


جہاں ہنگامہ برپا ہو وہاں ہے کفر خاموشی
اے تشنہؔ تم بھی کچھ بولو رہو گے بے زباں کب تک