وہی کون و مکاں اپنا متاع زندگی اپنی
وہی کون و مکاں اپنا متاع زندگی اپنی
جہاں تک لے کے جاتی ہے مجھے آوارگی اپنی
اگر رسوائیوں تک بات ہوتی تو غنیمت تھی
تماشا بن گئی ہے آج ہر سو زندگی اپنی
پلٹ کر میں نے دوبارہ کبھی وہ در نہیں دیکھا
جہاں رسوا ہوئی اک بار بھی دیوانگی اپنی
مقابل ہے مرے فتنہ گری اب تو خدا جانے
کہاں تک ساتھ دیتی ہے مرا شائستگی اپنی
اسی امید پر آنکھیں در جاناں کو چومے ہیں
کہ اک دن رنگ لائے گی ادائے بندگی اپنی
چلن معلوم ہے دنیا کا مجھ کو بھی مگر تشنہؔ
مجھے خاموش کر دیتی ہے اکثر سادگی اپنی