جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں
جگنو کے ساتھ ساتھ ہی مہتاب بھی تو ہیں
ہم دریا برد گوہر نایاب بھی تو ہیں
یوں ہی نہیں ہیں لعل و گہر اپنے ہاتھ میں
دریا کے ہم وجود میں غرقاب بھی تو ہیں
تم کو تو صرف موجوں پہ حاصل ہے برتری
دریا کوئے یار میں گرداب بھی تو ہیں
جائز ہیں بے قراریاں لیکن جناب دل
اس کی نوازشوں کے کچھ آداب بھی تو ہیں
بس اک جھلک دکھا کے کہاں چل دیے حضور
ان بے قرار آنکھوں میں کچھ خواب بھی تو ہیں
پھر کس طرح سے پیاس کے ماروں کو صبر ہو
کچھ لوگ میرے شہر میں سیراب بھی تو ہیں
یہ کیا کی تشنہؔ تشنہؔ کہے جا رہے ہیں آپ
تشنہؔ کے ساتھ ساتھ کچھ القاب بھی تو ہیں