ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے

ڈر مجھے بھی لگتا ہے کم نظر زمانے سے
کیا کروں نہ مانے جب دل مرا منانے سے


جل اٹھا تھا پل بھر کو آپ کی عنایت سے
بجھ گیا چراغ دل آپ کے بجھانے سے


وہ تو لاابالی ہے کیا اسے خبر ہوگی
ہم پہ کیا گزرتی ہے حال دل چھپانے سے


برہمی میں چہرے کو کیوں بگاڑ رکھا ہے
یہ حسین لگتا ہے صرف مسکرانے سے


بام و در مرے گھر کے منتظر ہیں اس دن کے
جب تمہیں ملے فرصت محفلوں میں جانے سے


ہم وفا کے متوالے جان کو نہیں ڈرتے
باز اب تو آ جاؤ ہم کو آزمانے سے


درس جاں نثاری کا تو ہمیں نہ دے تشنہؔ
کیا ملا تجھے اب تک زندگی لٹانے سے