مری بے خواب ان آنکھوں کے منظر بول پڑتے ہیں

مری بے خواب ان آنکھوں کے منظر بول پڑتے ہیں
یہ چادر بول پڑتی ہے یہ بستر بول پڑتے ہیں


بھلا کیسے چھپاؤں اپنا یہ پر درد افسانہ
میں چپ رہتا ہوں تو غم کے سمندر بول پڑتے ہیں


بجائے آنسوؤں کے خون برساتی ہیں یہ آنکھیں
پرانے زخم جب اس دل کے اندر بول پڑتے ہیں


ہے جس کا نام سچائی بس اس کے حق میں تم اور ہم
مگر تردید میں لشکر کے لشکر بول پڑتے ہیں


ہماری لب کشائی پر ہے کیوں کر اتنا ہنگامہ
مسلسل ٹھوکریں کھا کر تو پتھر بول پڑتے ہیں


میاں ایسی عدالت میں بھلا انصاف کیا ہوگا
جہاں مظلوم سے پہلے ستم گر بول پڑتے ہیں


غنیمت ہے کہ اب بھی بادلوں کی اوٹ سے تشنہؔ
اندھیروں کے مخالف ماہ و اختر بول پڑتے ہیں