جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ
جن کے پاؤں بھی نہیں ہیں ان کو سر کہتے ہیں لوگ
کیا زمانہ ہے کہ پودوں کو شجر کہتے ہیں لوگ
ایک آنسو بھی نہ ٹپکا آج تک جس آنکھ سے
کیا قیامت ہے اسی کو چشم تر کہتے ہیں لوگ
اب زمانے کی کسوٹی کا یہی معیار ہے
سیپ سے نکلا نہیں پھر بھی گہر کہتے ہیں لوگ
مصلحت کی بیڑیوں میں جب سے جکڑی ہے زباں
ہم نظر والوں کو اکثر کم نظر کہتے ہیں لوگ
اس لئے ہر آنکھ سے اب نیند رخصت ہو گئی
دن کی ناکامی کا قصہ رات بھر کہتے ہیں لوگ
کیا زمانہ آ گیا ہے پر سکوں لہجے میں اب
چار دن کی چاندنی کو ہم سفر کہتے ہیں لوگ
جس کی صورت دیکھ کر کچھ لوگ پاگل ہو گئے
کچھ نہ کچھ ہم پر بھی اس کا ہے اثر کہتے ہیں لوگ
فرق کیا پڑتا ہے اس سے تشنہؔ تیری ذات پر
کہنے دے جل کر تجھے کچھ بھی اگر کہتے ہیں لوگ