تشنہ اعظمی کی غزل

    صداقت کی یہاں گرتی ہوئی دیوار دیکھی ہے

    صداقت کی یہاں گرتی ہوئی دیوار دیکھی ہے ستم کی جیت دیکھی ہے کرم کی ہار دیکھی ہے غریبوں کی ہی کشتی کو ہمیشہ ڈوبتے دیکھا امیر شہر کی کشتی ہمیشہ پار دیکھی ہے امیر شہر ان آنکھوں میں کتنا محترم ہے تو جن آنکھوں نے تری ذلت سر بازار دیکھی ہے ان آنکھوں نے سر نیزہ کوئی بھی سر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ کبھی بستر کبھی چادر بچھاتے رہ گئے

    وہ کبھی بستر کبھی چادر بچھاتے رہ گئے نیند کی آغوش میں ہم جاتے جاتے رہ گئے ہم نے کالی رات میں سارا سفر طے کر لیا جن کے ذمے روشنی تھی چاند لاتے رہ گئے رات آئی چاند نکلا سارے پنچھی سو گئے چاندنی میں ہم مگر دل کو جلاتے رہ گئے چاند نے قیمت وصولی چاندنی کی بارہا ہم ستارے آسماں پر ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنی جھیل سی آنکھیں جو لے کر اشک بار آئے

    وہ اپنی جھیل سی آنکھیں جو لے کر اشک بار آئے بھلا ایسے میں کس ظالم کو دل پر اختیار آئے سنورتی ہی نہیں قسمت انہیں ہاتھوں سے اب اپنی کہ جن ہاتھوں سے وہ قسمت ہزاروں کی سنوار آئے نہیں جب واسطہ کوئی رہا اپنا گلستاں سے ہمیں کیا فرق ہے یارو خزاں آئے بہار آئے خدا جانے ابھی باقی ہیں کتنے ...

    مزید پڑھیے

    دن کے ہارے ہوئے جب شام کو گھر جاتے ہیں

    دن کے ہارے ہوئے جب شام کو گھر جاتے ہیں زندگی ہم تری آغوش میں مر جاتے ہیں کوئی تو بات ہے جو اب بھی تری جانب ہم دل اجازت نہیں دیتا ہے مگر جاتے ہیں آج بھی کچے گھڑوں پر ہی بھروسہ کر کے عشق والے چڑھے دریا میں اتر جاتے ہیں ہم غریبوں کے طرف دار بہت ہیں لیکن بات انصاف کی آئے تو مکر جاتے ...

    مزید پڑھیے

    مسلسل تیرنے والا بھی اکثر ہار جاتا ہے

    مسلسل تیرنے والا بھی اکثر ہار جاتا ہے سمندر سے جو بچ نکلے تو دریا مار جاتا ہے شرافت کا مری چرچا سر بازار کیا پہنچا جسے دیکھو وہی آ کر مجھے للکار جاتا ہے سر مقتل میں جاں بخشی کی اس سے التجا کر کے اگر سر کو بچا لوں تو مرا کردار جاتا ہے ہمیں چھو کر جو بن جاتا ہے مٹی سے کھرا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3